پاکستان میں بذریعہ ’’جمہوریت‘‘ لوٹ مار  

اکرام سہگل  ہفتہ 14 جولائی 2018

جب جرائم پیشہ یا بہروپیے کرپٹ افراد اپنی لوٹ مار کو جائز بنا کر پیش کریں، اسے ہی منی لانڈرنگ کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہر سال مالیاتی اداروں کی مدد سے جرائم سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالر کی منڈی لانڈرنگ کی جاتی ہے، تاہم یہ کام مالیاتی شعبے کی مدد کے بغیر بھی ممکن ہے۔ مالیاتی خدمات کا شعبہ جو خدمات اور مصنوعات (جنھیں دوسروں کی ملکیت کی نگرانی اور انتظام کا عنوان دیا جاتا ہے) پیش کرتا ہے، ان کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ ان کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

منشیات فروشی، دہشت گردی، اسمگلنگ، ٹیکس چوری سے متعلق مالیاتی جرائم ہمیشہ سے غیر معمولی مسئلہ رہے ہیں۔ کئی معزز بینکار کبھی لالچ اور کئی مرتبہ خوف کے باعث اس عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں انسداد بد عنوانی اور مالیاتی جرائم کے خلاف ، اور معیار حکومت میں بہتری کے لیے، نجی و سرکاری شعبے کے تعاون سے کام کرنے والا بازل انسٹی ٹیوٹ آن گورننس ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔

اس کی اگست 2017کی رپورٹ میں غیر معمولی منی لانڈرنگ/ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو درپیش خطرات کے اعتبار سے پاکستان کو 146ممالک میں سے 46 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔ 2017ء کے اوائل میں شایع ہونے والی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اسٹرٹیجی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی جانب سے سالانہ 10ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔ ہر سال جرائم پیشہ اور بدعنوان افراد ٹیکس اور حکومتی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کرتے ہیں۔

منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ سے متعلق پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے جس ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ذمے داری قبول کی تھی، وہ بھی مسلسل ہمارے لیے سنگین مسئلہ ثابت ہورہی ہے۔ جنیوا میں عالمی اقتصادی فورم کے“Partnering Against Corruption Initiative”  کے تحت گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں یہ اتفاق کیا گیا تھا کہ عالمی معیارات پر عمل درآمد کیے بغیر قوانین کا  مؤثر اطلاق ممکن نہیں۔

ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب تک تفتیش کے طریقہ کار بہتر نہیں بنائے جاتے، اثاثوں کے ثبوت اور منی ٹریل نہ ہونے جیسے مقدمات کو عدالتوں میں جرم ثابت کرنا تقریباً ناممکن رہے گا۔ بدعنوانی سے حاصل کردہ دولت یا اثاثے اکثر انھی ترقی یافتہ ممالک میں رکھے جاتے ہیں، جو ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کا سب سے زیادہ واویلا کرتے ہیں۔ ان کی اخلاقیات اس وقت کہاں ہوتی ہیں جب وہ اپنی نصیحتوں پر عمل نہیں کرتے اور ایسے معاملات میں قانونی تعاون سے گریز کرتے ہیں؟ یہ بات بھی اپنی جگہ بجا ہے کہ منی لانڈرنگ کے خلاف مؤثر قوانین کے باوجود بدعنوان سیاست داں اور جرائم پیشہ عناصر  لوٹ کے پیسے کو محفوظ کرنے کے لیے دنیا کے بینکاری قوانین کے نظام میں سقم اور مدد پر آمادہ بینک تلاش کرہی لیتے ہیں۔

سزا سے بچنے کے لیے یہ کام اس انداز سے کیا جاتا ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کے کسی ضابطے کی تکنیکی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ مطلوبہ نگرانی نہ ہونے کے باعث لوٹ مار کی رقم کی منتقلی اور تحفظ بھی مشکل نہیں۔ کروڑوں پاکستان سے باہر محفوظ کردیے جاتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا کہ ملک میں اس رقم پر ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں۔ لندن میں کئی  مہنگے اپارٹمنٹ جانے پہچانے وائٹ کالر مجرموں کی ملکیت ہیں جن میں سابق آمر، بینکوں کے نادہندگان، ٹیکس چور، منی لانڈرر اور سیاست دان وغیرہ شامل ہے۔

6جولائی کو نااہل وزیر اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کرپشن ریفرنس میں نیب عدالت نے دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی، اسی مقدمے میں مریم نواز کو آٹھ سال اور ان کے شوہر کیپٹن(ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا دی گئی۔ عدالت نے ان تینوں سزا یافتگان کو احتساب آرڈیننس کی شق 15کے تحت دس برس تک عوامی عہدے اور بینک سے قرض حاصل کرنے کے لیے نااہل کردیا۔ نواز شریف اور مریم نے لندن سے جمعہ 13جولائی کو واپسی کا اعلان کیا۔ لاہور پاکستان مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے ۔

پاکستان مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف پاکستان میں انتہائی مقبول ہیں، وہ بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ان کے قائد کو بیس کروڑ پاکستانیوں کا مینڈیٹ حاصل ہے، یہ سچ نہیں ہے۔ 2013کے انتخابات میں پی ایم ایل این نے ایک کروڑ 49لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے جو مجموعی طور پر پڑنے والے ووٹوں کا 32فی صد بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے 17فی صد یعنی 77لاکھ اور پیپلز پارٹی نے 15فیصد یعنی 68لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔

پی ایم ایل این کو 84پی ٹی آئی کو 42اور پیپلز پارٹی کو 37نشستیں حاصل ہونا چاہییں تھی لیکن پی ایم ایل این کو غیر متناسب طور پر 53 نشستیں زائد، پی ٹی آئی کو 13اور پیپلز پارٹی کو چھے نشستیں کم ملیں۔ پی پی پی سے دس لاکھ ووٹ زائد لینے کے باوجود پی ٹی آئی کو اس سے چار نشستیں کم ملیں۔ ’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘‘ کے بجائے ’’رن آف‘‘ کے پیمانے ہی سے حقیقی طور پر اکثریت کی نمایندگی ہوتی ہے۔ ’’متناسب نمایندگی‘‘ کے اصول سے روگردانی گورننس کو متاثر کرتی ہے اور نواز شریف کو بشمول منی لانڈرنگ دیگر بدعنوانیوں کے لیے جو سزا دی گئی ، اس نے  ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی۔

اگر مقبولیت ہی کو جمہوریت کی مضبوطی کا پیمانہ تسلیم کرلیا جائے تو دنیا کے بعض انتہائی خطرناک مجرم اور منشیات فروش اپنے ممالک میں انتہائی مقبول رہے ہیں۔ سڑکوں اور موٹرویز وغیرہ کی تعمیر و ترقی اپنی جگہ، انھی کاموں کے لیے ووٹ بھی ملتے ہیں، لیکن اس سے کسی کو بدعنوانی اور لوٹ مار کا لائسنس تو نہیں مل جاتا۔کیا ہم ایسی جمہوریت کے خواہاں ہیں جہاں قانون کی حکمرانی اور احتساب کا وجود ہی نہ ہو؟

احتساب جمہوری نظام کی روح ہے، اگر احتساب ہی کو نظر انداز کردیا جائے اور صرف انتخابات جیتنے والوں کو اقتدار منتقل کرنے پر اکتفا کردیا جائے تو اس کا نتیجہ جمہوریت کے نام پر تماشے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ شکاگو کرائم کمیشن نے الکپون کو عوام کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا، اسے ٹیکس چوری پر گیارہ برس سزا ہوئی۔ میکسیکن ڈرگ لارڈ واکین  ’’الچیپو‘‘ گزمین پر ،جو امریکا میں مقدمات کا سامنا کررہا ہے، کوکین ہیروئین اور منشیات کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی نیٹ ورک چلانے کے الزامات ہیں۔ اس کے سنالووا کارٹیل نامی گروہ نے میکسیکو میں ایک دہائی پر محیط ڈرگ وار میں مرکزی کردار ادا کیا، جس میں 1لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔

گزمین نے چار براعظموں پر پھیلے اپنے نیٹ ورک سے 14ارب ڈالر بنائے۔ وہ امریکا، میکسیکو اور انٹرپول کو مطلوب تھا، اسے میکسیکن حکومت نے پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا جہاں اس کے خلاف مقدمات شروع کیے گئے۔ کرۂ ارض کے مطلوب ترین مجرموں میں شامل گزمین نے میکسکو میں شہرت حاصل کی، مقامی افراد مختلف تہواروں پر اچانک اس کے ظاہر ہونے اور مجمعے پر نوٹوں کی بارش کے قصے سناتے ہیں۔ کئی لوگ اسے لیڈر اور ہیرو مانتے ہیں کیوں کہ ’’ وہ ایک غریب کسان تھا، اس نے بالکل نچلی سطح سے آغاز کیا اور وہ عام لوگوں کی مدد کرتا تھا۔‘‘

اس نے پکی سڑکیں تعمیر کروائیں، وہ بیماروں کے علاج کا خرچ اٹھاتا تھا۔ اس کے برعکس حکومت دوردراز دیہات کی غریب آبادی کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی۔ عوام میں مقبول ایسا ہی ایک اور کردار کولمبیا کا منشیات فروش پابلو اسکوبار ہے، جس نے انتہائی سفاکی سے دولت کے انبار جمع کیے، دنیا کے انتہائی خوں خوار اور طاقت ور مجرموں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اسکابور نے 1970کی دہائی میں میڈیلن کارٹل بنا کر کوکین کی تجارت شروع کی۔ اسے خیراتی کاموں اور فٹ بال کلب کی سرپرستی سے شہرت حاصل ہوئی، اس نے غریبوں کے لیے مکان تعمیر کیے۔ کئی لوگ اسے رابن ہڈ قرار دیتے تھے۔ 1993میں وہ کولمبیا کی پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کے حالیہ انکشافات کے بعد سپریم کورٹ نے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کردی تھی۔ ان پر 29 بینک اکاؤنٹس سے 35ارب روپے کی رقوم کی مشکوک منتقلیوں کا الزام ہے۔ الچیپو اور اسکوبار کے برعکس زرداری نے سندھ کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔نئے بین الاقوامی قوانین کے ہوتے ہوئے اب اپنے اثاثے آف شور کمپنیوں کی آڑ میں مزید نہیں چھپائے جا سکتے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔