بلور خاندان کی قربانی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 14 جولائی 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ہارون بشیر بلور انتخابی مہم میں شہید کردیے گئے۔ امن و امان کے ذمے دار ادارے ناکام ہوگئے۔ خودکش حملہ آور اب بھی آسانی سے اپنے اہداف حاصل کررہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2013 کی کہانی پھر دہرائی جانے لگی۔ اب جمہوریت پر یقین رکھنے والے رہنماؤں کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوجائے گا۔ سیاسی رہنماؤں کی سیکیورٹی واپس لینے کا فیصلہ پھر سوال بن گیا۔

ہارون بلور کے والد بشیر بلور اور میاں افتخار حسین نے طالبان کی دہشت گردی کو چیلنج کیا تھا۔ بشیر بلور 2012ء میں ایک خودکش حملے میں شہید کیے گئے۔ میاں افتخار حسین کے بیٹے کو مذہبی دہشت گردوں نے شہید کیا تھا۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ مذہبی دہشت گرد پھر منظم ہوگئے ہیں اور وہ پھر کوئی حملہ کریں گے۔ ہارون بلور کی شہادت سے 2013 کے واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے پہلے دن سے طالبان کی حکومت کو چیلنج کیا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی خان عبدالغفار خان کے عدم تشدد کے نظریہ کی امین ہے، وہ طالبان کے جنونیت کے نظریہ کے خلاف متحد ہوگئی۔ طالبان نے خیبرپختونخوا میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس حملے کی زد میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر بلور بھی آئے، جو پشاور میں ایک کارنر میٹنگ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ پھر اے این پی کے سیکڑوں کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ ان کے سیکڑوں دفاتر مسمار کردیے گئے۔

پارٹی کے صدر اسفندیار ولی سمیت کئی رہنما خودکش حملوں میں خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔ حالات بہتر ہونے کے بعد اے این پی دوبارہ منظم ہونا شروع ہوئی۔ ہارون بلور اے این پی کی تیسری نسل کے رہنما تھے۔ وہ سیکیورٹی خدشات کے باوجود عوام سے رابطہ کو اسی طرح ترجیح دیتے تھے جس طرح ان کے والد بشیر بلور دیتے تھے۔ ہارون بلور کی کوششوں سے پشاور اور اطراف کے علاقوں میں اے این پی پھر منظم ہورہی تھی۔ شاید یہی ہارون کا جرم بن گیا۔ ہارون کی خودکش دھماکے میں شہادت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ غیر ریاستی کردار (Non state actors) پھر منظم ہوچکے ہیں۔

دہشت گردی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تباہ ہوگئی تھیں اور ان کی سپلائی لائن معطل ہوگئی تھی، مگر پاکستانی ریاست کے بیانیہ میں تضاد کی بنا پر یہ دہشت گرد پھر منظم ہونے لگے۔ بعض ماہرین اس صورتحال کی ذمے داری پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں مذہبی دہشت گردوں کے بسنے کے لیے ماحول بدستور موجود ہے۔ قبائلی علاقوں سمیت دیگر شہروں میں ان کی کمین گاہیں پھر قائم ہوچکی ہیں۔

مدارس اور دیگر ذرایع سے آنے والی زکوٰۃ اور خیرات کی بڑی رقمیں انھیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک مدرسہ کو کروڑوں روپے کی امداد دی۔ اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا بے نظیر کے قتل میں ملوث تھے۔ پھر کشمیر کی صورتحال ان مذہبی تنظیموں کو بسنے کا خاص ماحول فراہم کرتی ہیں۔ حکومت نے گزشتہ ماہ ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والی تنظیم کو پرامن سرگرمیوں کی اجازت دی۔

اس تنظیم کے سربراہ  اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست نے انھیں سیاست کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اسی طرح بعض مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی کئی تنظیمیں بھی بخوبی متحرک ہیں۔ یہ تنظیمیں مذہبی جنونیت اور انتہاپسندی کے جذبات کو خوب اچھالتی ہیں۔ اس دفعہ انتخابات میں مذہبی تنظیموں کے امیدواروں کی اچھی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔

دہشت گردی کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کو انتخابی مہم سے روکنے کی روایت اس صدی میں پڑی جب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو ستمبر 2007 میں انتخابات کو منظم کرنے کے لیے پاکستان آئیں۔ ان کے استقبال کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کو اس دن شام کو مزار قائد پر ایک بڑے جلسہ عام میں اہم تقریر کرنی تھی۔ بے نظیربھٹو کے قافلے پر شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر خودکش حملہ ہوا۔ اس وقت شاہراہ فیصل کی اسٹریٹ لائٹ اچانک بند ہوگئی تھی۔

اس حملہ میں بے نظیر بھٹو زندہ بچ گئیں، مگر پیپلز پارٹی کے کارکن شہید ہوئے۔ اس کے باوجود بے نظیر بھٹو نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی۔ دہشت گردوں نے 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو خودکش حملہ میں شہید کردیا۔ ملک اچانک بین الاقوامی رہنما سے محروم ہوا اور پیپلز پارٹی تنزلی کی طرف دوڑنے لگی۔ طالبان کے نئے رہنما مفتی ولی محمد محسود نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ طالبان کمانڈر بیت اﷲ محسود نے تیار کیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف حکومت نے بے نظیر بھٹو کی سیکیورٹی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے تھے۔

ان ناقص اقدامات کا تجزیہ کرنے والے ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ مشرف حکومت اس قتل کی سازش میں ملوث تھی۔ پھر پانچ سال خودکش حملہ آوروں کا راج رہا۔ ان خودکش حملہ آوروں نے عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی کے اراکین، ترقی پسند کارکنوں اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کے علاوہ خواتین کو بھی نشانہ بنایا۔ ان مذہبی دہشت گردوں نے تحریک انصاف اور دیگر مذہبی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی تھی، حتیٰ کہ مسلم لیگ ن بھی اس دہشت گردی سے براہِ راست متاثر نہیں ہوئی۔

یہ معاملہ صرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان تک محدود نہ رہا، ان مذہبی دہشت گردوں نے کراچی میں بھی اے این پی کے دفاتر تباہ کیے اور کراچی کے مضافاتی علاقوں سے ترقی پسند کارکنوں حتیٰ کہ اسکول چلانے والے اساتذہ کو بھی قتل کیا۔ جب تک پشاور میں آرمی پبلک اسکول کو دہشت گردوں نے نشانہ نہیں بنایا تھا یہ لوگ اپنے ٹارگٹ پورے کرتے رہے۔ بشیر بلور، راشد رحمن، پروین رحمن، ڈاکٹر فاروق، پروفیسر شبیر شاہ، ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر وحید الرحمن جیسے بہت سے افراد شہید ہوئے۔

پھر امن ہوا، بہت سے دہشت گرد مارے گئے۔ اس وقت دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ پاکستانی ریاست اپنے بنیادی اقدامات نہیں کررہی جس سے مذہبی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ان عناصر کی معاشی پائپ لائن فعال ہے اور اسلحہ بھی موجود ہے۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو انتہاپسندی کی طرف راغب کرنے والا ذہن کام کررہا ہے۔

اب پھر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انتخابات کہیں ملتوی نہ کردیے جائیں، یا پھر مخصوص سیاسی جماعتیں آزادی سے اپنی مہم ہی نہ چلاسکیں۔ یہ دونوں صورتیں جمہوریت کے مستقبل کے لیے خطرناک ہیں۔ نگراں حکومت کو بیوروکریسی کی رپورٹوں پر اعتبار کرنے کے بجائے حقیقی اقدامات کی طرف لے جانا چاہیے۔ بلور خاندان نے ایک سیکولر جمہوری پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں، بلور خاندان کا خواب ضرور پورا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔