ایک منصوبہ جو تاریخی ہے

عبدالقادر حسن  ہفتہ 14 جولائی 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کروڑ ملازمتوں کے علاوہ پچاس لاکھ گھر خودمختار خارجہ پالیسی ، وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو عوام کے زیر استعمال لانے کے خوش کن وعدہ کے ساتھ عام انتخابات سے قبل عوام کو اپنے آیندہ کے ترقیاتی پروگرام سے آگاہ کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے جس میں تقریباً تمام عوامی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کی اہم ترین بات مدینے جیسی ریاست کا قیام ہے۔

اسلام کے پہلے دارالخلافہ کی بنیاد آنحضرتﷺ نے رکھی اور یہ شرف حجاز کے مقام مدینہ کو حاصل ہوا ۔ اسلام کی مقبولیت اور اس اسلامی ریاست میں تیزی سے بڑھتی ہوئی وسعت کے باعث یہ ضروری ہو گیا تھا کہ ایک مقام ایسا بھی ہو جہاں سے اسلامی سلطنت کو کنٹرول کیا جا سکے اس کے لیے مدینہ منورہ کا انتخاب عمل میں آیا ۔ حضور پاکﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ان کے خلفائے راشدین نے اسلامی سلطنت کو مزید وسعت دی ۔

حضرت ابوبکر صدیق  ؓ کے زمانے میں اسلامی ریاست کو مضبوط بنانے کے لیے بنیادی کام کیے گئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق  ؓ کو ان کے رفقائے کار نے حکمرانی میں نرمی برتنے کا مشورہ دیا کیونکہ ان کو یہ ڈر تھا کہ آنحضرتﷺکے وصال کے بعد اسلام کے دائرہ کار میں داخل ہونے والے نئے مسلمان کہیں ان سختیوں کی وجہ سے دوبارہ منکر نہ ہو جائیں لیکن ابو بکر صدیق  ؓ نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسلامی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے بھی انکار کر دیا، شاید یہی وہ وجہ تھی کہ ان کے بعد آنے والے خلفاء کے ادوار میں مسلمانوں کی سلطنت پھیلتی گئی بلکہ بعض مورخین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق  ؓ نے جن اصولوں پر اُمہ کو گامزن کیا اس کی وجہ سے ہی حضرت عمر ؓ کا دور خلافت تاریخی اہمیت اختیار کر گیا اور جدید اسلامی ریاست کی راہ میں تما م رکاوٹیں دور ہو گئیں ۔

حضرت عمر فاروق ؓ نے جس اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اسی کی پیروی کرتے ہوئے ہی آج کی کافر مغربی حکومتیں اپنے عوام کے لیے آسانیاں فراہم کر رہی ہیں لیکن جنہوں نے فلاحی ریاست کا تصور دیا ان کے بعد میں آنے والی حکومتیں اس فلاحی حکومت کے قیام میں ناکام رہیں اور مسلمانوں کے بنائے گئے اصولوں کو اپنا کر مغربی دنیا میں حقیقت میں فلاحی حکومتیں کام کر رہی ہیں ۔ یہ مغربی حکومتیں صرف مسلمان حکومتیں نہیں ہیں لیکن ان کے تمام اصول و ضوابط اسلامی ہیں اور ہم مسلمان ہونے کے باوجود اپنے مذہب میں وضع کیے گئے اصولوں پر عملدرآمد سے قاصر ہیں۔

جناب عمران خان اپنی تقریر میں تسلسل کے ساتھ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنائیں گے اب انھوں نے اپنے منشور میں بھی اس بات کو شامل کیا ہے ۔ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں یہ ایک مشکل کام ہے جس کا اعلان عمران خان نے کیا ہے ۔ ہمارا حکومتی سسٹم اس قدر بگاڑ کا شکار ہے کہ اس کی اصلاح دنوں کی بات نہیں بلکہ اس کام کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے اور وہ مدت کسی بھی منتخب حکومت کی آئینی مدت سے زیادہ ہے ۔

عمران خان جو کہ اپنے فلاحی منصوبوں کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوئے کرکٹ کے بعد ان کا پہلا عوامی تعارف ہی ان کے فلاحی کام بنے جن کی تکمیل کے لیے وہ عوام کے پاس گئے جنہوں نے ان کی جھولی میں اپنا سب کچھ انڈیل دیا ۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کے بعد وہ پہلے پاکستانی ہیں جن پر قوم نے اعتبار کیا اور انھوں نے عوام کے چندے کے پیسوں سے ایک عظیم الشان اسپتال کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد وہ رکے نہیں بلکہ اس طرح کے دو اور اسپتال بھی مکمل ہو چکے ہیں اس کے علاوہ انھوںنے ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی اور وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جہاں پڑھائی کا تصور بھی محال تھا ۔

اس بین الاقوامی یونیورسٹی سے ہر سال سیکڑوں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے کفیل بن رہے ہیں۔ یہ یونیورسٹی میرے آبائی علاقے سے متصل ہے اور وادیٔ سون کے سب سے بلند پہاڑ سکیسر کی چوٹی پر کھڑے ہوں تو دوسری طرف نمل جھیل کے کنارے یہ یونیورسٹی نظر آتی ہے ۔ میرے گاؤں کا بھی ایک نوجوان اس یونیورسٹی سے مفت تعلیم حاصل کر کے اپنے گھر والوں کے لیے ماہانہ لاکھوں کما رہا ہے ۔ اس کے والد یہ بتاتے ہوئے رو پڑے کہ وہ خود جو کہ ایک پہاڑی کے دامن میں رہائش پذیر ہیں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میرا بیٹا بھی کبھی کسی عالمی معیار کی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرے گا وہ اس کا سہرا عمران خان کے سر سجاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ایک غریب اور پسماندہ ترین علاقے کا نوجوان بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر گیا۔

پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا خواب عمران خان نے دیکھا ہے اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے خواہاں ہیں ان کی یہ ایک نیک نیتی ہے کہ عوام ان پر اعتبار کرتے ہیں اور ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس کو کر دکھائیں گے کیونکہ اس سے پہلے عوام ان کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھ چکے ہیں ۔ ان کا یہ نیا منصوبہ دشوار ترین منصوبہ ہے جس کے لیے پیغمبروں جیسی قوت ارادی کے علاوہ ایک ایسی ٹیم کی ضرورت بھی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کی خدمت ہو ۔

اس کے باوجود ریاست مدینہ کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ عوام کا ساتھ بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کا کسی بھی حکومت کے منصوبے کی کامیابی یا ناکامی میں بنیادی کردار ہوتا ہے عوام کے تعاون کے بغیر کوئی بھی حکومت اپنے کسی بھی فلاحی منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام ہی حکومتی منصوبوں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اگر صحیح معنوں میں کوئی ایسا حکمران بر سر اقتدار آگیا جس پر عوام کا اعتبار ہوا  تو عوام اس حکمران کے منصوبوں کو نہ صرف کامیاب بنائیں گے بلکہ

ان کی کامیابی میں ان کا حصہ بھی ہوگا۔ مدینہ جیسی ریاست کا خواب اگر شرمندہ تعبیر ہو گیا تو جناب عمران خان کو پاکستانی عوام زندگی بھر کے لیے اپنے سر کا تاج بنا کر رکھیں گے لیکن اگر یہ اعلان بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح الیکشن میں کامیابی کے لیے ایک اور نعرہ بن گیا تو اس کی اصلیت کا حال بھی بہت جلد معلوم ہو جائے گا ۔ خدا خیر کرے ہمیں اصلی اور نقلی کی پہچان کی طاقت عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔