بھارت کا بزدلانہ انتقام

عابد محمود عزام  بدھ 8 مئ 2013

26 اپریل کو کوٹ لکھپت جیل میں دو قیدیوں نے بھارتی دہشت گرد جاسوس سربجیت سنگھ پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کر دیا، پاکستانی پولیس نے حملے کے فوری بعد ملزمان سے تحقیقات شروع کیں، سربجیت سنگھ پر حملے کا مقدمہ تھانہ کوٹ لکھپت میں درج ہوا۔

ایف آئی آر کے مطابق سربجیت سنگھ کوٹ لکھپت جیل کے بلاک 7 ای میں بند تھا جب کہ حملہ کرنے والے سزائے موت کے قیدی عامر بلاک سیون بی اور مدثر سیون اے میں بند تھے۔ ہیڈ وارڈن احسان الحق اور امدادی وارڈن صفدر حسین بلاک 7 کے قیدیوں کو بند کر رہے تھے، اچانک عامر اور مدثر نے سربجیت سنگھ پر حملہ کر دیا۔ وارڈنز نے بچانے کی کوشش کی تو مدثر نے ان پر بھی حملہ کر دیا۔ حملہ آور مدثر اور عامر کا کہنا تھا کہ 29 اپریل کو بھارتی وفد کی پاکستان آمد اور سربجیت سنگھ کی رہائی کی اطلاعات پر اْسے تشدد کا نشانہ بنایا۔

ڈسپنسر اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے فوری میڈیکل آفیسر جیل کی زیر نگرانی سربجیت کو طبی امداد کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دیا، پاکستان نے سر بجیت کے اہل خانہ کو سربجیت سنگھ سے ملنے کے لیے تمام سہولیات فراہم کیں، ڈاکٹرز نے اسے بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ جان کی بازی ہار گیا۔ جونہی بھارت میں سربجیت سنگھ پر قاتلانہ حملے کی خبر پہنچی تو بھارتی سرکار نے اسے حادثہ تسلیم کرنے کی بجائے سفارتی سطح پر حکومت پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دیا، جب کہ بھارت کے میڈیا نے پاکستان کے خلاف عوام میں اشتعال پیدا کرنا شروع کر دیا۔

بھارت کے صحافی اور سابق رکن پارلیمان سنتوش بھاٹیہ نے 4 مئی کو وائس آف امریکا کی نشریات میں بڑے غصیلے لب و لہجے میں سربجیت پر قاتلانہ حملے کو حکومت پاکستان کی گھناؤنی سازش قرار دیا اور کہا کہ بھارت کی جیلوں میں تو پھانسی یا عمر قید پانے والے قیدی کو دیگر تمام قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ انہیں دوسرے پھانسی یا عمر قید کے سزا یافتہ قیدیوں سے بھی ملنے نہیں دیا جاتا، پاکستان میں یہ کیسا قانون ہے؟ سنتوش بھاٹیہ نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ دعویٰ کیا کہ سربجیت بھارت کا جاسوس ہرگز نہیں تھا، وہ بھٹک کر سرحد پار پاکستان میں داخل ہو گیا تھا۔

جسے پاکستانی پولیس نے لاہور میں بم دھماکے کی واردات میں پھنسا دیا۔ حالانکہ سربجیت کے معاملے کی ہر مرحلے پر عدالتی کارروائی کی گئی تھی، حتیٰ کہ اسے عدالت عظمیٰ میں اپیل کی اجازت دی گئی لیکن عدالت نے اس کی سزا برقرار رکھی۔ آخر سنتوش بھاٹیہ اتنی دور بیٹھے ہوئے پاکستان کی عدلیہ کے فیصلے کو کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟

جب سربجیت سنگھ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کی لاش کو بھارت منتقل کیا گیا تو بھارت نے اسے ایک ہیرو کا درجہ دیا اور 14پاکستانیوں کے قاتل کیلیے سرکاری اعزاز کا بھی اہتمام کیا گیا اور ریاستی پولیس فورس نے اسے سلامی دی اور مخصوص سرکاری موسیقی بجائی گئی، حکمراں جماعت کانگریس پارٹی، اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور ریاست میں حکمران جماعت اکالی دل کے سینیئر رہنماؤں نے سربجیت کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

ریاست پنجاب کی حکومت نے سربجیت سنگھ کو شہید کا درجہ دیا اور اس کی لاش کو قومی پر چم میں لپیٹ کر آخری رسومات کے لیے جا یا گیا۔ ریاستی حکومت نے سرکاری سطح پر تین روز تک سوگ منانے کا بھی اعلان کیا۔ مرکزی حکومت نے سربجیت سنگھ کے اہل خانہ کو 25 لاکھ روپے جب کہ ریاستی حکومت نے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ بھارت میں کئی حلقوں نے سوال اٹھایا کہ آخر سربجیت کیا تھا جو اس کے لیے سرکاری اعزاز کا اہتمام کیا گیا۔ حکومت کی ان تمام کارروائیوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سربجیت سنگھ ضرور حکومت کی کوئی نہ کوئی ذمے داری نبھا رہا تھا ورنہ جنوری میں جب ایک اور بھارتی قیدی چمیل سنگھ کی لاش پاکستان سے بھارت لائی گئی تھی تو حکومت نے اس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

جس وقت پاکستان کے چودہ افراد کی ہلاکت کے جرم میں سزا یافتہ بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی لاش بھارتی پنجاب میں اس کے آبائی علاقے میں جلائی جا رہی تھی، اس وقت 3 مئی کو مقبوضہ کشمیر کی جیل میں عمر قید کے سزا یافتہ پاکستانی قیدی ثناء اللہ پر سزا یافتہ بھارتی فوجی نے کلہاڑی سے حملہ کیا، جس کے باعث ثناء اللہ کا مغز باہر نکل آیا۔ وہ قومے میں چلا گیا اور بالآخر شہید ہو گیا۔ یہ کم ظرف، بزدل، فرقہ پرست بھارتی حکومت کا بھونڈا انتقام تھا، اگر سربجیت پر قاتلانہ حملے سے قبل سری نگر کی جیل میں ثناء اللہ پر کسی سزا یافتہ ہندو فوجی نے کلہاڑی کا وار کیا ہوتا تو اسے جیل کے عملے کی غفلت قرار دیا جا سکتا تھا لیکن سربجیت پر حملے کے فوراً بعد اسی نوعیت کا حملہ ہر گز حادثہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔

یہ سیدھا سادہ بزدلانہ انتقام ہے، جس کی اعلیٰ ترین سرکاری سطح پر منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پاکستانی وزیر اطلاعات عارف نظامی نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ سربجیت سنگھ کا واقعہ اتفاقی جب کہ پاکستانی قیدی ثناء اللہ پر حملہ سوچا سمجھا ہے۔ ثناء اللہ پر ہونے والا حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے معالجین کے مطابق سر پر کلہاڑیوں کے وار کے باعث ثناء اللہ مسلسل قومے میں تھے۔ ہفتے کی صبح 3 افراد پر مشتمل پاکستانی سفارت خانے کے اہلکاروں نے چندی گڑھ کے اسپتال میں زیر علاج ثناء اللہ کی عیادت کی۔ سفارتی ذرایع کے مطابق ثناء اللہ پر حملہ انتہائی بہیمانہ طریقے سے کیا گیا۔

دوسری جانب پاکستان کے نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ سے رابطہ کر کے ان سے قیدی ثناء اللہ پر تشدد کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بھارت کی جیلوں میں قید دیگر پاکستانی قیدیوں کی حفاظت بھی یقینی بنائی جائے۔ سید علی گیلانی نے پاکستانی قیدی ثناء اللہ پر حملے کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سربجیت سنگھ پر ساتھی قیدیوں کے حملے کے بعد کشمیری اور پاکستانی قیدیوں کی حفاظت کے بارے میں بھارتی دعوؤں کا پول کھل گیا ہے۔ اس حملے سے سنتوش بھاٹیہ کے اس دعوے کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ بھارتی قید خانوں میں سنگین جرائم میں ملوث حساس نوعیت کے قیدیوں کو بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔

اگر یہ دعویٰ سچا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ بھارتی حکام نے ثناء اللہ کو قتل کرانے کی سازش کی تھی، اس لیے دوسرے قیدیوں کو ان تک رسائی کے مواقعے فراہم کر دیے اور عین ممکن ہے کہ مبینہ سزا یافتہ بھارتی فوجی کو حکومت نے ثناء اللہ کو قتل کرنے کے لیے تیار کیا ہو ۔ یوں بھی بادی النظر میں سری نگر جیل میں کی گئی واردات منصوبہ بندی معلوم ہوتی ہے۔ جب کم ظرفی، تنگ نظری، تعصب، عداوت پوری قوم میں سرایت کر گئی ہو تو امن کی آشا کیسے کی جا سکتی ہے؟

اس ذہنیت کا مورد الزام صرف جنونی بھارتیوں کو ٹھہرانا درست نہیں ہے، کیونکہ جب پاکستان کی مسلم ریاست کا ذکر آتا ہے تو ہر بھارتی ہندو خواہ وہ کانگریسی ہو، سوشلسٹ ہو یا کمیونسٹ جنونی ہو جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا مشہور قول ہے کہ ہندو کو ذرا خراش لگاؤ تو تم اسے فرقہ پرست پاؤ گے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ جو قوم کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں کے مقابلے میں تعصب، نفرت اور تنگ نظری برتے، اس سے با اعتماد تعلقات کیسے قائم کیے جا سکتے ہیں؟ آخر بابری مسجد کی شہادت میں راجیو گاندھی، نرسمہاراؤ اور ایل کے ایڈوانی سب شریک تھے۔

گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے 2002 میں احمد آباد میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمان آبادی کی نسل کُشی کا عمل شروع کیا، جس میں دو ہزار بے گناہ مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ان جنونیوں نے کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان احسان جعفری کو کاٹ کر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور جب ان کی بیوہ بیگم ذکیہ جعفری نے ان کے قتل کا مقدمہ درج کرایا تو انہیں انصاف نہیں ملا۔ اسی بھارت سے قطعاً بعید نہیں کہ اس نے اپنے اسی روایتی تعصب کی بنا پر پاکستانی قیدی ثناء اللہ کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔