عام انتخابات اور خاموش ووٹرز

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 15 جولائی 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کہا جاتا ہے کہ محبت، جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اگر انسان کسی مہذب قوم یا معاشر ے سے تعلق رکھتا ہو تو وہ اخلاقیات کا دامن کسی حالت میں نہیں چھوڑتا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہماری سیاست میں اب اخلاقیات کا جنازہ ہی اٹھتا جا رہا ہے اور بعض اوقات تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ بظاہر کیسے کیسے مہذب نظر آنیوالے بھی جاہلوں کی سی حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

چند واقعات ایسے ہی نواز شریف کی لندن رہائش گاہ پر دیکھنے کو ملے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اوران کے خاندان پر الزامات بھی لگے اور عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ بھی سنایا۔ آیا وہ درست ہیں یا غلط، اس سے قطع نظر جس طرح سے لندن میں ان کی رہائش گاہ کے باہر کچھ لوگوں نے احتجاج کیا اور حد درجہ بدتمیزی بھی کی، بلکہ ایک دو مرتبہ تو ان کے خاندان کے لوگوں کو مارنے کو چڑھ دوڑے، اس سے اس ملک و قوم کو بڑی شرمندگی ہوئی۔ گو کہ تحریک انصاف کے کچھ ذمے داران ان لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں مگر لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اس سب کے پیچھے عمران خان کی جماعت کا ہی ہاتھ ہے۔

حملہ کرنیوالے یہ تمام لوگ کسی بڑے سیکولر تعلیمی ادارے کے پڑھے لکھے لگ رہے تھے، مگر ان کی ان گھٹیا حرکتوں سے اس ملک اور قوم کی جگ ہنسائی ہورہی تھی کہ یہ کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں کہ جو آستین چڑھائے کسی کے گھر پر لاتیں اور گھونسوں کی برسات کرنے آگئے۔ اس عمل کی سب کو مذمت کرنی چاہیے تھی، مگر افسوس کہ اب سیاسی انتقام میں لوگ ٹی وی چینلز پر آکر اس غلط عمل کا بھی جواز پیش کر رہے تھے۔ یہ اور اس جیسے کچھ اور واقعات نے جن میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے، تحریک انصاف کی اس ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا جو ابتدا میں قائم ہوئی تھی، جس کے تحت لوگ سمجھ رہے تھے کہ واقعی ایک نیا اور اچھا پاکستان بنایا جائے گا۔

بہرکیف اس طرح سے کسی کے گھر پر جاکر حملہ اور بد تمیزی کرنا نہ صرف انتہائی غیر اخلاقی ہے بلکہ اس ملک اور قوم کی ساکھ بھی برباد کرنے کے برابر ہے۔ جس قسم کی خبریں آرہی ہیں اور جس طرح سے تحریک انصاف نے ’الیکٹیبلز‘ امیدواروں کی نئی اصطلاح کے تحت مختلف جماعتوں کے مضبوط امیدواروں کو پہلے ہی آفر دے کراپنے ساتھ ملا لیا ہے، اس سے تحریک انصاف یقیناً عددی اعتبار سے نشستیں حاصل کرسکتی ہے، مگر اس ساری صورتحال میں ایسے ووٹر جو تحریک انصاف کو ایک بااصول اور کھری جماعت تصور کر رہے تھے، قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کو اب ووٹ نہ دیں اور اس کی وجہ یہی ہوگی کہ جو خوبیاں تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی تھیں وہ اب اس جماعت سے ختم ہو چکی ہیں۔

ابتدا میں تحریک انصاف سے ان ووٹرز کی بڑی تعداد متاثر ہوئی تھی جو ووٹ دینے کا فیصلہ رنگ، نسل یا زبان اور فرقہ کی بنیاد پر نہیں کرتے تھے بلکہ کسی اچھے امیدوار کو ووٹ دینا ان کی ترجیح ہوتی ہے۔ پاکستان کے شہروں میں اب بھی ایسے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد ہے کہ جو روایتی انداز میں نہیں سوچتے اور نہ ہی کسی ایک جماعت کو آنکھ بند کرکے ووٹ دینے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ووٹرز کی اصل تعداد یہی ہوتی ہے کہ جس کے فیصلے سے صورتحال تبدیل ہوتی ہے، ورنہ تو اس جاگیردارانہ قسم کے ماحول میں کوئی چوہدری یا وڈیرہ یا پھر ذات پات کا کوئی نمائندہ جس طرف اشارہ کر دے لوگ تمام ووٹ اس طرف ہی ڈال دیتے ہیں۔ ان ووٹرز کو خاموش اکثریت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

گزشتہ عام انتخاب کے کراچی شہر کے نتائج میں ان ہی خاموش ووٹرز کا کمال تھا کہ ایم کیو ایم کے گڑھ سے بہت بڑی تعداد میں ’’پتنگ‘‘ کے بجائے ’’بلے‘‘ کے نشان والے ووٹ منظرعام پر آئے۔ اس کے بعد کراچی ہی سے ضمنی انتخابات میں ’’بلے‘‘ کے ووٹ توقع سے کم پڑے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ خاموش اکثریت کے ووٹ محض کسی جماعت کی خواہش پر نہیں پڑتے بلکہ رہنماؤں اور جماعتوں کے کردار کے باعث اپنا رخ بدلتے ہیں۔ موجودہ منظرنامے میں تحریک انصاف کی پوزیشن کمزور تر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ (یہ اور بات ہے کہ اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس طرح سے تحریک انصاف کو ایک خاص ’’توانائی‘‘ حاصل ہو رہی ہے، اس کے بعد یہ جماعت اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود ’جوڑ توڑ‘ کرکے اقتدار میں آ جائے گی)۔

بہرحال ایک خیال یہ ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں کے علاوہ کراچی میں اس مرتبہ ووٹرز کا فیصلہ بڑا اہم ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ کراچی سے تین بڑی جماعتوں کے چوٹی کے سربراہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں کہ خاموش اکثریت کے ووٹرز کو متاثر کرکے فائدہ حاصل کیا جائے۔ چنانچہ یہ تمام رہنما کراچی کی گلیوں کوچوں میں عوام سے ملنے بھی آ رہے ہیں۔

کراچی میں ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ اور ان کے پرانے نمائندوں کی غیر متاثر کن کارکردگی کے باعث یہ خیال تقویت پکڑ گیا ہے کہ یہاں کی خاموش اکثریت اب اپنا فیصلہ روایتی انداز میں نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہاں ووٹرز کے حلقہ کی نئی ترتیب بھی ہے جس کے تحت اردو بولنے والوں اور دیگر زبان بولنے والوں کے ووٹوں کی تعداد بعض حلقوں میںکچھ اس طرح ہوگئی ہے کہ کئی حلقوں میں تو عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کو آپس میں انتخابی اتحاد کرنا پڑگیا ہے۔

ایم کیو ایم کے گروپس آپس میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں کہ فلاں فلاں نے کراچی کی زمینوں کا سودا کرکے ناجائز دھن کمایا، فلاں فلاں نے بیرون ملک بینک بیلنس بنا لیا، فیکٹری میں سیکڑوں لوگوں کو جلا کر مارنے میں کردار ادا کیا، وغیرہ وغیرہ۔ ان الزامات سے قطع نظر شہری اپنے مسائل خود بھی دیکھ رہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ انتخابی مہم میں عوام کا روایتی جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے، تاہم یہ بھی زندہ حقیقت ہے کہ کراچی کے ووٹرز کی ایک تعداد مہاجر شناخت پر ہی ووٹ ڈالنا چاہے گی، مگر اس مرتبہ ان کے لیے چوائس تقسیم ہو چکی ہے اور یہی تقسیم یہاں کے خاموش ووٹرز کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالیں اور تمام جماعتوں کے نمائندوں کو مجبور کر دیں کہ اب انھیں ووٹ صرف کارکردگی پر ہی ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔