میں تو جانا چاہتا ہوں مگر…

شیریں حیدر  اتوار 15 جولائی 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’کافی لیں گی آپ؟‘‘ استنبول ائیرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھے ہوئے، چند باتوں کے بعد کہیں نہ کہیں سے واقفیت نکل آئی تھی۔ یوں بھی دیار غیر میں ہم رنگ اور ہم زبان کا مل جانا ایک نعمت غیر مترقبہ لگتا ہے۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا، ملک کے بہت سے نوجوانوں کی طرح جو اعلی تعلیم کے ویزے پر بارہ سال پہلے کینیڈا گیا تھا، اس وقت وہ کس عمر کا ہو گا، میں تصور کر سکتی تھی۔ اس نے خو د ہی بتایا تھا کہ اسٹڈی ویزہ پر جانے کا مقصد ہر گز اعلی تعلیم حاصل کرنا نہیں تھا، اصل مقصد یہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح ملک سے نکلا جائے، باہر جا کر چند ہفتے اس یونیورسٹی میں حاضری لگوائی جائے اور ساتھ ساتھ کام ڈھونڈا جائے۔ کام تو ظاہر ہے کہ چوری چھپے کرنا تھا کیونکہ اس ویزے پر کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔

’’بہت شکریہ بیٹا! ‘‘ میںنے کافی لے کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کافی ہمیںپکڑا کر اپنے لیے مزید کافی لینے چلاگیا اور چند منٹوں میں واپس آ گیا۔

’’آپ کیوں کینیڈا جا رہے ہیں؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ میںنے اسے بتایا کہ میری بیٹی وہاں رہتی ہے اور ہمیں جب بھی ویزہ میسر ہوتا ہے تو ہم اسے موسم گرما میں ملنے چلے جاتے ہیں، وہاں کاموسم سرما ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ ’’اوہ، بالکل میری طرح!‘‘

’’تو پھر آپ کیا کرتے ہو موسم سرما میں؟‘‘ میں نے سوال کیا، ’’میرا مطلب ہے کہ کام وغیرہ بھی تو کرنا ہوتا ہے آپ کو!‘‘

’’ ہاں … ظاہر ہے کہ اب توبارہ سال ہو گئے ہیں اور عادت ہو گئی ہے مگر شروع میں بہت مسئلہ ہوا تھا۔ پہلے سال تو میں اس ملک میں جس چیز کو سب سے زیادہ مس کرتا تھا وہ روئی کی بھاری رضائی تھی۔ جب یہاں آیا تو اتنی رقم بھی پاس نہ تھی پہلے سال کہ اپنے لیے مناسب جیکٹ اور جوتے خرید سکتا جوکہ سردی کے خلاف میرا دفاع کرتے۔ اپنے ساتھ لائے ہوئے جوتوں پر میں پلاسٹک کے لفافے چڑھا لیتا تھا کہ وہ برف سے خراب بھی نہ ہوں اور سردی کے خلاف میرا کچھ دفاع بھی کریں، ان کے اندر میں دو تین جوڑے جرابوں کے اکٹھے چڑھا لیتا تھا۔ جہاں کہیں جاتا، پیدل ہی جاتا تھا کہ بسوںکے کرائے کے لیے رقم بھی نہ ہوتی تھی یا کسی سے لفٹ مل جاتی تو سہولت ہو جاتی تھی۔ لوگوں نے ہفتہ وار اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ اور فالتو سامان باہر رکھا ہوتا تھاتو اس میںسے میں نے اپنے لیے ڈھونڈ ڈھانڈ کر جیکٹ، سویٹر اور جوتے جمع کر لیے تھے۔ نہ صرف اپنے لیے بلکہ جب بھی مجھے کوئی ایسی چیز نظر آتی تو میں جمع کر لیتا کہ میرے جیسے کسی اور کے کام آ جائیں گی۔ جہاں میں رہ رہا تھا وہاں پر ہم ایک کمرے میں آٹھ لڑکے تھے، چار بیڈ تھے اور ہم دن رات کی شفٹوں میں اپنی نیند پوری کرتے تھے۔ ہمارا ذاتی سامان اسی ایک پلنگ کے اوپر اور نیچے بکھرا رہتا تھا۔ میں ان حالات سے بھی بدتر حالات میں رہ رہا تھا جن سے میں پاکستان سے آیا تھا!‘‘

’’تو آپ واپس کیوں نہیں چلے گئے‘‘

’’ میں تو جانا چاہتا تھا مگر … ‘‘ وہ رکا، ’’میرے گھر کے حالات نے اجازت ہی نہ دی کہ میں واپس جاؤں۔ میرے والدین نے اپنا گھر گروی رکھ کر اور ماں نے اپنے زیورات بیچ کر میری ایک سمسٹر کی فیس، ٹکٹ کی رقم اور دیگر اخراجات کے لیے رقم میرے ہمرا ہ کی تھی، اس امید پر کہ میرے وہاں فقط پہنچ جانے سے ہی گھر کے حالات اچھے ہو جائیں گے اور دنوں میں ہن برسنے لگے گا۔ ماں تو شاید زیورات کے بغیر گزارا کر لیتی مگر گھر کو کس طرح چھڑوایا جاتا!!‘‘

’’بارہ سال میں کیا یہ سب ہو گیا؟‘‘

’’میںنے دن رات کام کیا، ڈبل ڈبل شفٹ میں، ظاہر ہے کہ یہ سب غیر قانونی تھا، میرے ویزہ پر کام نہیں کیا جا سکتا تھا تو میری اس مجبوری کو سب نے کیش کیا۔ ہوٹلوں کے کچن میں برتن دھونا، کمروں کی صفائی، اولڈ ہومز میں بوڑھوں کی غلاظت صاف کرنے کے کام، اسٹوروں میں سودے اٹھانے اور صفائیوں کے کام، لوگوں کے گھروں کے سامنے سے برف ہٹانا… ہر وہ کام میںنے کیا جس کے بارے میں پاکستان میں رہتے ہوئے میں سو چ بھی نہ سکتا تھا۔ اس کے صلے میں مجھے جو معاوضہ ملتا تھا وہ اس معاوضے کا نصف ہوتا تھا جو کہ عام کام کرنے والے کو ملتا تھا، جو کہ قانونی طور پر کام کر سکتا تھا۔ میرے جیسے لوگوں کی مجبوری کو ہر کوئی کیش کرتا تھا۔ چھ سال تک جدوجہد کرنے کے بعدمیںنے ایک گوری سے شادی کر لی، وہ یہی کام کرتی تھی، میرا مطلب ہے کہ کاغذی شادی، اس کے عوض مجھے کچھ رقم ہر ماہ اسے دینا ہوتی تھی۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں جہاں بھی کام کرتا تھا وہاں پر مجھے وہی عوضانہ ملتا تھا جو کہ باقی کام کرنے والوں کو ملتا تھا۔

جس سے میری شادی ہوئی وہ ایک حساس لڑکی تھی۔ ہر ماہ جب میں اس سے اپنے کاغذات سائن کروانے جاتا جن کے مطابق ہم دونوں ساتھ رہتے تھے تو وہ مجھے بٹھاتی، کافی وغیرہ پلواتی اور مجھ سے ہمدردی کی باتیں کرتی۔ آہستہ آہستہ میں بھی اس سے مانوس ہونے لگا اور ایک دن اس نے مجھ سے اظہار محبت کر دیا۔ کاغذوں میں تو ہم میاں بیوی تھے ہی، اس نے مجھے اس رشتے کو حقیقت میں بدلنے کی پیش کش کی، میںنے خاموشی اختیار کی اور اپنے والدین سے رابطہ کر کے ان سے اجازت چاہی۔ انھیں یہ سن کر شاک لگا کہ میں ایک غیر مسلم سے شادی کرنا چاہتا ہو ں۔ انھوں نے اس کی مخالفت میں بہت سی دلیلیں دیں اور بتایا کہ وہ میرا رشتہ ملک میں تلاش رہے تھے اور جلد ہی میری شادی کاسوچ رہے تھے۔ میں کچھ عرصہ کے لیے خاموش ہو گیا، میری دو بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں، گھر کو گروی سے چھڑوانے کے لیے رقم کو ماہانہ اقساط میں ادا کیا جا رہا تھا۔ میںنے پوری جان مار کر ہر اس لمحے میں کام کیا تھا جب میں جاگ رہا ہوتا تھا۔ کچھ وقت گزرنے پر میں نے جانا کہ میرے والدین نے میری شادی کی حوالے سے جو بھی کہا تھا،اس میں کوئی صداقت نہ تھی۔ ایک ایک کرکے میری بہنیں بیاہی جا رہی تھیں، مطالبات اور اخراجات بڑھ رہے تھے۔ میںنے انھیں بتائے بغیر اپنی کاغذی بیوی سے نکاح کر کے حقیقی رشتہ قائم کر لیا اور اس کے گھر پر منتقل ہو گیا۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میرا معیار زندگی بہتر ہو گیا، میں کام کر کے جو کچھ کماتا ہوں اس کی ایک ایک پائی والدین کو بھیجتا ہوں۔ یہاں میں مکمل طور پر اس پر انحصار کرتا ہوں، وہ ایک بہت اچھی لڑکی ہے اور میرے ساتھ بہت مخلص ہے، کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتی۔ اچھی پڑھی لکھی ہے اور اپنا بزنس کرتی ہے۔ اس کے خلوص کے صلے میں ویک اینڈ پراور چھٹی کے دن اس کے بزنس کے اکاؤنٹ دیکھ لیتا ہوں۔‘‘

’’ تمہارے والدین اب بھی نہیں کہتے کہ لوٹ آؤ؟ ‘‘

’’اب وہ کہتے ہیں مگر اب میں کس طرح لوٹوں، میں واپس جانا چاہتا تھا مگر اب نہیں! اب یہاں میری بیوی ہے… وہ میری شادی کرنا چاہتے ہیں اب اور میں انکار کردیتا ہوں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں نے یہاں شادی کر لی ہے اس کے باوجود وہ مجھے کہتے ہیں کہ اسے چھوڑ دو، اب مجھے اس سے منسلک رہنے کی ضرورت نہیں رہی، میں ان کی مرضی کے مطابق پاکستان میں شادی کر لوں۔ میں پاکستان میں شادی کر کے اپنی بیوی کو کینیڈا نہیںلا سکتا، نہ ہی میں اپنی اس بیوی کو چھوڑ سکتا ہوں۔ اس نے میرے ساتھ مشکل میں اتنا اچھاسلوک کیا اور میں اس کے بدلے ان کے ساتھ برا کروں؟ ہر گز نہیں! وہ کہتے ہیں کہ میں وہاں شادی کر کے اس بیوی کو ان کی خدمت کرنے اور میرے بچے پیدا کرنے کے لیے رہنے دوں، مگر میں اپنی اس بیوی کے ساتھ دھوکہ نہیں کر سکتا!‘‘ اس کے لہجے میں عزم تھا’’ پاکستان میں شادی کر کے میں ایک اور لڑکی کو اپنے نام پر اپنے گھر والوں کی ملازمہ نہیں بنا سکتا اور نہ ہی یہاں والی بیوی سے جھوٹ بول سکتا ہو ں۔ میری پاکستان میں کی گئی شادی کا یہاں پول کھل گیا تو میں گرفت میں آجاؤں گا کہ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے میں دوسری شادی نہیں کر سکتا۔ والد صاحب اب بہت جذباتی بلیک میل کرتے ہیں کہ میں نافرمانی کرتا ہوں اور ان کے مطالبے سے انکار کرتا ہوں مگر میں ان کی اس بات کو مان نہیں سکتا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر واپس لوٹ آؤ مگر میں یہ بھی نہیں کرسکتا!‘‘

’’ ہوں … ‘‘ میں نے گہری سانس لی۔ میں اسی نوعیت کے کئی واقعات اور کرداروں کوجانتی ہوں۔ اس سے پہلے بھی ایسی کئی کہانیاں سن چکی ہوں جس میں معصوم نوجوان گھروں سے نکلتے ہیں کہ گھروں کی غربت چند سال میں مٹا کر لوٹ آئیں گے مگر پردیس میں کمائی کرنا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جو کسی کو واپس لوٹنے نہیں دیتا۔ میں تو واپس جانا چاہتا ہوں مگر… اس سے شروع ہو کر جانے کتنی ہی کہانیاں ہیں، ان کہانیوں کے کردار وہی نوجوان ہیں جن کے سر پر گھروں، والدین اور بہنوں کے بوجھ ہوتے ہیں اور وہ اس بوجھ کو اتارنے کی تگ و دو میں اپنی عمریں پردیس میں ہی گزا دیتے اور وہیں کی خاک میں خاک ہو جاتے ہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔