- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
برطانوی اسکولوں میں لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ کی جگہ دوبارہ بلیک بورڈ اور چاک متعارف
لندن: برطانیہ کے کئی اسکولوں میں ٹیبلٹ، الیکٹرانک وائٹ بورڈ اور لیپ ٹاپ کی جگہ دوبارہ روایتی بلیک بورڈ اور چاک کا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے۔
ایک مطالعے کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ انٹر ایکٹو الیکٹرانک بورڈز اور ٹیبلٹ کی جگہ اگر روایتی تختہ سیاہ اور چاک سے پڑھایا جائے تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ایک برطانوی این جی او کے مطابق اس عمل پر کمزور طلبہ و طالبات بھی یکساں طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دوسری جانب الیکٹرانک آلات کی بجائے بچوں اور نوعمروں (ٹین ایجرز) کو روایتی انداز میں پڑھایا جائے تو وہ تیزی سے سبق سیکھتے ہیں اور اس کے اخراجات بھی بہت کم ہوتے ہیں۔
برطانیہ بھر کے اسکولوں میں تین سال تک یہ تجربات کیے گئے اور اس میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو سلیٹ پر لکھنا سکھایا جائے تو اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اول تو استاد ازخود فوری طور پر جواب معلوم کرلیتا ہے جس کے بعد استاد فرداً فرداً ہر بچے کی فوری رہنمائی کرسکتا ہے۔
تجرباتی طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ الیکٹرانک آلات کی بجائے چاک، بلیک بورڈز سے بچوں کو پڑھایا جائے تو صرف دو ماہ بعد ہی بچوں کے امتحانی گریڈ میں واضح اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی دو ماہ تک بھی چاک اور بورڈز پر پڑھانے سے واضح فرق سامنے آجاتا ہے تاہم ٹیبلٹس کے لیے سلیٹ کی طرح کام کرنے والی اگر کوئی ایپ بنالی جائے تو بھی اس کے فوری فوائد سامنے آتے ہیں۔
یہ سروے برطانیہ کی مشہور تعلیمی این جی او ’دی ایجوکیشن اینڈاؤمنٹ فاؤنڈیشن‘ (ای ای ایف) نے کیا ہے اور اس بنا پر 140 اسکولوں میں دوبارہ بلیک بورڈ اور چاک سے پڑھائی شروع کروادی ہے۔
اس مطالعے میں سیکڑوں اسکول شامل تھے اور مجموعی طور پر 25 ہزار بچوں کا تین سال تک مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین تعلیم نے چاک اور بورڈ کے نتائج کو اس لیے مؤثر ثابت پایا کیونکہ اس میں بچے کی صلاحیت ہاتھوں ہاتھ سامنے آجاتی ہے۔ تین سال بعد معلوم ہوا کہ اچھے طالب علموں کی صلاحیتیں مزید بہتر ہوئیں اور اوسط طلبہ و طالبات کی کارکردگی بھی اچھی ہوتی گئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیبلٹ پر دیئے گئے جوابات کو استاد بعد میں چیک کرتا ہے جبکہ بلیک بورڈ اور سلیٹ پر لکھے گئے جوابات وہ فوری طور پر چیک کرکے بچے کی خامیوں سے آگاہ ہوتا ہے اور اسی لمحے بچے کو ہدایت اور رہنمائی فراہم کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ قبل ازیں جاپانی ماہرین بھی کہہ چکے ہیں کہ الیکٹرانک آلات سے بچوں کے لکھنے کی استعداد متاثر ہوتی ہے جبکہ چھوٹی عمر میں بچوں کے لکھنے سے دماغ کے اعصاب اچھی طرح سرگرم ہوتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔