- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم شہباز شریف کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- شیخ رشید کے بلو رانی والے الفاظ ایف آئی آر میں کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
- بورڈ کا قابلِ ستائش اقدام؛ بےسہارا و یتیم بچوں کو میچ دیکھانے کی دعوت
- امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شرمناک قرار دیدیا
- پاکستان کی مکئی کی برآمدات میں غیر معمولی اضافہ
- ایلیٹ فورس کا ہیڈ کانسٹیبل گرفتار، پونے دو کلو چرس برآمد
- لیجنڈز کرکٹ لیگ فکسنگ اسکینڈل کی زد میں آگئی
- انجرڈ رضوان قومی ٹیم کے پریکٹس سیشن میں شامل نہ ہوسکے
- آئی پی ایل، چھوٹی باؤنڈریز نے ریکارڈز کا انبار لگا دیئے
- اسٹاک ایکسچینج؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار 72 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور
- شاداب کو ٹیم کے اسٹرائیک ریٹ کی فکر ستانے لگی
- لکی مروت؛ شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق
- اٹلی: آدھی رات کو آئسکریم کھانے پر پابندی کا بِل پیش
ڈی این اے میں ڈیٹا محفوظ کرنے والی پہلی پروڈکٹ 2019 میں متوقع
بوسٹن: آپ نے ڈی این اے میں ڈیجیٹل ڈیٹا کی غیرمعمولی مقدار رکھنے کی خبریں تو سنی ہوں گی اور اب ایک کمپنی نے کہا ہے کہ وہ اگلے سال ڈی این اے میں ڈیٹا والی پہلی تجارتی پروڈکٹ پیش کررہی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی لائف لیب میں قائم ہونے والی اس کمپنی کا نام کیٹلاگ ہے جو اگلے سال ڈی این اے گولی (پیلٹ) بنائے گی اور ایک ایک پیلٹ میں بہ آسانی 40 بلیو رے ڈی وی ڈیز کے برابر ڈیٹا رکھا جاسکے گا۔
اس سے قبل ماہرین ثابت کرچکے ہیں کہ ڈی این اے میں ڈیٹا کو سیکڑوں سال تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل ماہرین ڈی این اے میں تصاویر اور معلومات رکھنے کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اب کیٹلاگ کمپنی نے ڈی این اے پیلٹ میں معلومات رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے اگلے سال پہلی کمرشل پروڈکٹ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک سال قبل وہ ایک کلوبائٹ کے اشعار ڈی این اے پر لکھ چکے ہیں۔
اب وہ ایسی مشین پر کام کررہے ہیں جو فوری طور پر ڈی این اے کے اربوں مالیکیولز پر ڈیٹا منتقل کرسکے گی۔ اگلے مرحلے میں آئی ٹی کمپنیوں اور دیگر اداروں کو ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اب تک کئی بڑی کمپنیوں نے اس نظام میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
اگر یہ تجربہ کامیاب رہتا ہے تو اکیسویں صدی میں ڈیٹا کو کم جگہ محفوظ کرنے کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال 4 سے 5 ارب زیٹا بائٹس کا ڈیٹا پیدا ہورہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو 2040 تک ڈیٹا کو محفوظ رکھنا ایک بہت گھمبیر مسئلہ ہوجائے گا۔
اس وقت ہم موسیقی سے لے گر تصاویر تک مقناطیسی ہارڈ ڈسک میں رکھتے ہیں اور یہ ڈسک اپنی حدود تک پہنچ رہی ہے۔ اس کا بہترین حل ڈی این اے میں معلومات محفوظ رکھنا ہے۔ اس وقت سیارہ زمین پر جتنی بھی فلمیں بنی ہیں وہ سب چینی کے دانے جتنے ڈی این اے نظام میں رکھی جاسکتی ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ پہلے یہ عمل بہت مہنگا تھا اور اب قدرے کم خرچ ہوگیا ہے تاہم اب بھی یہ قدرے مہنگا نسخہ ہے۔ البتہ ماہرین پُرامید ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ڈی این اے میں ڈیٹا رکھنے کی ٹیکنالوجی بہت آسان اور کم خرچ ہوتی جائے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔