منشور

ظہیر اختر بیدری  پير 16 جولائی 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے اپنے اپنے منشور کا اعلان کردیا ہے۔ ماضی میں کوئی جماعت منشور کو اہمیت نہیں دیتی تھی کیونکہ کسی جماعت کو منشور جیسی اہم اور بنیادی دستاویز سے کوئی دلچسپی نہ تھی، اس بار ملک کی بڑی جماعتوں کو اپنے اپنے منشور اس لیے پیش کرنا پڑے ہیں کہ میڈیا خصوصاً کالم نگاروں نے سیاسی جماعتوں کو منشور کے حوالے سے مجبور کر دیا تھا کہ وہ عوام کے سامنے اپنے اپنے منشور پیش کریں تاکہ عوام کو اندازہ ہو سکے کہ سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کی ترجیحات کا کس طرح تعین کرتی ہیں۔

ملک کے اہم بنیادی مسائل میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ایک اہم ترین بنیادی مسئلہ ہے، حیرت ہے کہ اس بنیادی مسئلے کو سیاسی پارٹیاں نظرانداز کرتی آرہی ہیں، اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اب بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کی لابی مضبوط ہے، وہ اس مسئلے کو دبانے کی کامیاب کوششیں کرتی آ رہی ہیں ، زرعی اصلاحات ملک میں تین بار ہوچکی ہیں لیکن جاگیردار اور وڈیرے انھیں ہر بار ناکام بناتے آرہے ہیں۔

زرعی اصلاحات اس لیے ناگزیر ہیں کہ دیہی علاقے خاص طور پر سندھ اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقے اب تک جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر اثر ہیں اور عام انتخابات میں یہ علاقے جاگیرداروں اور وڈیروں کی کامیابی کے ضامن بنے ہوئے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم ہوچکا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے دو صوبوں میں اب بھی جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے۔

’’ہے اور نہیں ہے‘‘ کے اس ابہام کو دور کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب یا الیکشن کمیشن نے انتخابی امیدواروں سے جس طرح ان کے اثاثے طلب کیے تھے اسی طرح ایک مخصوص مدت میں جو ایک یا دو ماہ ہوسکتی ہے جاگیرداروں اور وڈیروں سے اپنی زرعی زمین کی تفصیلات طلب کریں یا اس حوالے سے ایک کمیشن مقرر کریں جو سندھ اور جنوبی پنجاب کا مکمل سروے کرکے اپنی رپورٹ چیف جسٹس یا الیکشن کمیشن کو پیش کرے کہ کس جاگیردار اور وڈیرے کے پاس کتنی زرعی زمین موجود ہے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ سروے اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکمران اشرافیہ کا جو احتساب ہو رہا ہے اس میں ان کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے لیکن ملک کے وڈیرے اور جاگیردار اب تک احتساب سے آزاد ہیں۔

جاگیرداری نظام کا خاتمہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ نظام ملک کی جمہوری اور سیاسی پیش رفت میں دیوار بنا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد ہر ملک نے پہلا کام یہ کیا کہ جاگیردارانہ نظام ختم کردیا غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے اور اب تک لاکھوں ایکڑ زمین جاگیرداروں اور وڈیروں کے پاس موجود ہے اور بعض وڈیرے محض اپنی شان کا اظہار کرنے کے لیے اپنی زمینوں کی لمبائی چوڑائی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

ہم نے اپنے کالم کا آغاز سیاسی جماعتوں کے منشور سے کیا تھا۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت میں منشور کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ پیمانہ ہے جس سے حکومتوں کی کارکردگی ناپی جاتی ہے اس حوالے سے پاکستانی عوام کی پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ منشور کو سمجھتے ہیں نہ سا کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ ایسے ملک میں میڈیا اور قلم کاروں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو منشور کی اہمیت کا احساس دلائیں تاکہ وہ سیاسی جماعتوں کے عزائم اور عوام دوستی کا اندازہ کرسکیں۔

ہمارے ملک کے حکمران طبقات نے عوام میں سیاسی بیداری کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے 70 سال سے منشور کو عام کی نظروں سے دور رکھا اور جذباتی نعروں سے عوام کو خوش کرتے رہے۔ اب حالات کے جبر سے مجبور ہوکر سیاسی جماعتوں نے باضابطہ طور پر اپنے منشور عوام کے سامنے پیش تو کر دیے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد اصل مسئلہ ہے جس کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں کے عوام انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں سے ان کے منشور طلب کرتے ہیں اور پارٹیوں کے منشور کا موازنہ کرکے جس پارٹی کے منشور کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اسے ووٹ دیتے ہیں۔ عوام ووٹ ڈال کر سو نہیں جاتے بلکہ باریکی کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ حکمران جماعت اپنے منشور پر عمل کر رہی ہے یا نہیں۔ عوام کی اس بیداری سے حکومتیں مجبور ہوجاتی ہیں کہ اپنے منشور پر عملدرآمد کریں۔

پاکستانی عوام ابھی تک نہ منشور کی اہمیت سے واقف ہیں نہ اس پر عملدرآمد سے انھیں کوئی دلچسپی رہی ہے، یہ کام میڈیا اور قلم کاروں کا ہے کہ وہ عوام کو سیاسی جماعتوں کے منشور اور اس کی اہمیت سے واقف کرائیں۔ دیہی علاقوں میں تو منشور عوام کے لیے عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن شہری علاقوں کا بھی یہ حال ہے کہ عوام ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی ذمے داری ختم سمجھتے ہیں۔

منشور پر حکمران جماعت عمل کر رہی ہے یا نہیں اس سے عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ محض چند وعدوں کا پروپیگنڈا کرکے عوام کو خوش کر دیں ماضی میں پیپلز پارٹی کے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کا بھرپور طریقے سے پروپیگنڈا کیا گیا لیکن اس پروگرام پر عملدرآمد کی نوبت نہ آسکی نہ عوام نے حکومت سے جواب طلب کیا کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے منشور پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟

ہر ملک میں بلدیاتی ادارے جہاں علاقائی مسائل حل کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں وہیں سیاسی کارکنوں کی تربیت کا ذریعہ بھی بنے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ’’جمہوریت پسند‘‘ سیاستدانوں کا حال یہ ہے کہ ان کی 70 سالہ سیاست کے دوران ایک بار بھی کسی حکمران سیاسی جماعت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران بلدیاتی انتخابات کرائے گئے لیکن سیاسی وڈیروں نے نہ بلدیاتی اداروں کو مالی اختیارات دیے نہ انتظامی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔