اخلاق ڈیم

امجد اسلام امجد  پير 16 جولائی 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

آج کل انتخابات کے بعد سب سے زیادہ چرچا جس بات کا ہے وہ محترم چیف جسٹس صاحب کا یہ اعلان ہے کہ سپریم کورٹ عوام کے عطیات سے اپنے قائم کردہ فنڈ میں اتنی رقم جمع کر لے گی کہ اس سے ایک یا ایک سے زیادہ ڈیم بنائے جا سکیں۔

مختلف عوامی طبقوں کی طرف سے نہ صرف اس کا خیرمقدم کیا گیا ہے بلکہ فوج سمیت کئی سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کے ملازمین نے اپنی ایک یا دو دن کی تنخواہ بھی اس میں جمع کرانی شروع کر دی ہے بظاہر اسے سارے معاملے میں ’’جذباتیت‘‘ ’’عملیت‘‘ پر غالب دکھائی دیتی ہے کہ اس طرح کے بڑے اور ملک گیر منصوبے حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں کہ ان میں متنوع قسم کے اور بہت اعلیٰ اور مخصوص نوعیت کے تکنیکی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کام جج صاحب کے کرنے کا نہیں انھیں اپنے تفویض کردہ معاملات تک اپنے آپ کو محدود رکھنا چاہیے۔ اصولی اور عقلی طور پر یہ بات بالکل درست ہے کہ یوں بھی ہمارے بہت سے مسائل اسی ’’اختیارات سے تجاوز‘‘ کی روش کے پیدا کردہ ہیں لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں دریاؤں اور ان کے پانی کی تقسیم کے معاہدے سے لے کر اب تک ہماری کسی بھی حکومت نے (بالخصوص سقوط ڈھاکا کے بعد) اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔

ابتدائی برسوں میں منگلا اور تربیلہ جیسے بڑے ڈیمز سمیت کچھ چھوٹے منصوبوں پر کام کیا گیا جن میں بعد میں اکا دکا اضافے تو ہوئے مگر کوئی بڑا ڈیم نہ بن سکا جس کی وجہ سے آج ہم پانی کا ذخیرہ کرنے اور اس سے توانائی پیدا کرنے کے ضمن میں طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہیں اور اب تو یہ صورت حال اور بھی سنگین ہوتی جا رہی ہے سو ایسے میں چیف جسٹس صاحب کے اس اقدام کو قانونی موشگافیوں اور تعصبات اور تحفظات کا ہدف بنانے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی روح کو سمجھا جائے جس کی بنیاد وطن کی محبت‘ عوام کی بھلائی اور مستقبل کی تعمیر و حفاظت ہے اور یہ وہ مرکز ہے جس پر ساری قوم یک دل اور یک جان ہے۔

اس کا دوسرا پہلو اس بات کا احساس دلانا بھی ہے کہ یہ کام اصل میں جن لوگوں کا تھا وہ اسے کرنے میں بوجوہ ناکام رہے ہیں سو یہ مہم ان کی جگہ لینے کی نہیں بلکہ انھیں ایک Wake up Call دینے کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اس قانون قدرت کی طرف ایک اشارہ بھی ہے کہ خلا یعنی Vaccum قائم نہیں رہتا اسے بہرحال پر ہونا ہوتا ہے۔ سو اگر یہ کام کوشش کے بجائے حالات پر چھوڑ دیا جائے تو پھر کسی نہ کسی کو آگے آنا پڑتا ہے۔

ظاہر ہے اب اس ’’کسی نہ کسی‘‘ والی صورت حال میں وہ سب تقاضے تو پورے نہیں ہو سکتے جن کا تعلق کسی ملک گیر یا بڑے معاملے سے ہوتا ہے۔ ایسے میں حکومت اور قومی سطح پر منصوبہ بندی کرنے والے اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنا کام وقت پر اور ذمے داری کے ساتھ کریں اور چیف جسٹس صاحب کے اس اعلان کو ایک متبادل یا مخالف عمل سمجھنے کے بجائے اس کی روح کو سمجھیں اور فوری طور پر ایسی منصوبہ بندی کریں کہ نہ صرف اس فنڈ کی معاونت سے ایک ڈیم تعمیر کیا جائے بلکہ ان بہت سارے چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر پر بھی بھرپور توجہ دی جائے جو کالا باغ ڈیم سے متعلقہ بحث یا ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے مختلف مراحل پر رکے ہوئے ہیں۔

جہاں تک چیف جسٹس صاحب اور ان کی سی سوچ رکھنے والے محب وطن دانشوروں اور دیگر احباب کا تعلق ہے میں ان کی توجہ ایک اور ’’ڈیم‘‘ کی تعمیر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس کا عبوری نام میں نے ’’اخلاق ڈیم‘‘ رکھا ہے۔ یہ وہ ڈیم ہے جس میں ہماری روایات کا ذخیرہ آبی وسائل کی صورت میں جمع ہو اور جس سے ہم جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اخلاق‘ برداشت‘ تحمل‘ انصاف اور باہمی محبت کی وہ انرجی پیدا کر سکیں جس سے ہمارے دلوں میں روشنی اور دماغوں میں وہ قوت پیدا ہو جو اس شدید اور مسابقت سے پر انسانی برادری میں ہمیں اس مقام پر کھڑا کر سکے جو ہمارا حق اور وہ ورثہ ہے جو ہمیں اپنی اگلی نسلوں کے لیے چھوڑ کر جانا ہے۔

جس تیزی سے پھلکڑ پن اور بازاری انداز ہمارے معاشرے اور بالخصوص سیاسی اسٹیج پر بڑھ رہا ہے یہ بہت افسوسناک بھی ہے اور خطرناک بھی سیاسی جلسوں اور انتخابات کی مخصوص فضا کی گرما گرمی میں گفتگو کے معیار کا کسی حد تک گر جانا کوئی نئی یا غیر معمولی بات نہیں۔

ہمارے جیسے تیسری دنیا کے اور نسبتاً نو آزاد ملکوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر وہ ادارے ابھی مستحکم نہیں ہو سکے جن کا تعلق بنیادی اور اجتماعی تہذیب سے ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اشرف المخلوقات اور رب کائنات کے پیغامات سے آشنا اور اخلاقیات کے نمایندہ ہونے کے باوجود بنیادی آداب سے بھی آزاد اور بے تعلق ہو جائیں جو زبان آج کل ہمارے بیشتر سیاسی لیڈر یا نمایندے استعمال کررہے ہیں (یہاں میرا اشارہ کچھ خاص شخصیات یا کسی ایک سیاسی جماعت کے نمایندے کی طرف نہیں بلکہ پورے سیاسی کلچر سے ہے) وہ کسی صورت بھی کسی مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ نہ صرف اس کی پستی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ہماری عمومی ’’تماش بینی‘‘ اور سوشل میڈیا کے ایک حصے میں باقاعدہ پلاننگ کے تحت مخالفین کی کردار کشی کے رویے نے اس احساس زباں کو مزید کم کر دیا ہے جس کی موجودگی میں غار کے دوسرے کنارے پر موجود کسی روشنی کی خبر دیتی رہتی ہے۔ اور یہ کام صرف کسی الیکشن کمیشن، پیمرا یا عدالت وغیرہ کے کرنے کا نہیں کہ اس کے شریک اور ذمے دار ہم سب ہیں۔

سو اس بدتہذیبی کا توڑڑ بھی ہم سب کو مل کر کرنا اور نکالنا ہو گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر عمل کا کوئی ردعمل ضرور ہوتا ہے اور یہ بھی کہ عمل پر قابو رکھنا ردعمل کو کنٹرول کرنے کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی اپنی سطح پر ردعمل میں بہنے کے بجائے اپنے عمل یعنی گفتگو‘ سوچ اور طرز اظہار کا محاسبہ کرے اور یہی اصول اپنی پوری جماعت اور اس کے لیڈروں پر بھی نافذ کرے کہ دوسروں کو بھی اپنے رائے اور پسند رکھنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہم اپنے لیے مانگتے ہیں اور یہ کہ غلط بات یا بے عزتی کی تکلیف ہماری طرح دوسروں کو بھی ہوتی ہے۔

جگت‘ تمسخر یا گالی ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہیں کہ ان کا ردعمل زنجیر کی کڑیوں کی صورت پھیلتا ہی چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہم ایک وطن کے شہری اور ایک دوسرے کے دوست اور بھائی ہوتے ہوئے بھی ایسے مخالف کیمپوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جیسے ایمان اور کفر یا سچ اور جھوٹ کی صف بندی ہو رہی ہو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ’’اخلاق‘‘ کے اس مجوزہ ڈیم کے لیے آپ کو پلے سے کچھ دینے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ صرف کچھ ناخوشگوار اور ناپسندیدہ ’’عطیات‘‘ کو قبول کرنے سے معذرت کرنی ہے۔

اختلاف  رائے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے کی عزت کرنا یا دوسروں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنا چھوڑ دیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اس اخلاق ڈیم کو تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ کسی کالا باغ ڈیم سے کم مفید نہیں ہو گا۔ دس جولائی کو احمد ندیم قاسمی مرحوم کی بارہویں برسی تھی دیگر بے شمار خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ عظمت آدم‘ آزادی‘ رواداری اور محبت کے بھی سفیر تھے سو اس اخلاق ڈیم کی تعمیر کی پہلی اینٹ انھی کے اس شعر سے رکھتے ہیں کہ

درگزر کرنے کی عادت سیکھو

اے فرشتو! بشریت سیکھو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔