یہ زیادتیاں، آخر کب تلک

مقتدا منصور  پير 16 جولائی 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں غیر جانبداری کے دعوے بہت کیے جاتے ہیں، مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی وابستگی اور غیر جانبدارانہ رائے کے فرق کو سمجھنے کا کوئی واضح تصور نہیں ہے۔

اگر تاریخ کے صفحات درست کرنے کی خاطر کسی ریاستی اقدام کے نتیجے میں کسی تنظیم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائی جائے، تو کچھ حلقے اس تنظیم سے وابستگی کا الزام لگاکر منہ بندکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ کسی ایک فریق کے غلط اقدامات کی نشاندہی اور دوسرے فریق کے کسی ایک موقف کی تائید کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فریق ثانی کے نظریات کے ساتھ مکمل اتفاق کرلیا گیا ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ 2013ء میں جب کراچی میں رینجرز آپریشن شروع ہوا، تو متوشش شہریوں کی خواہش تھی کہ اس کا دائرہ کار ہر قسم کے جرم کے خاتمہ تک محیط ہو۔ ساتھ ہی اس عمل کی مانیٹرنگ بھی ہو، تاکہ آپریشن کی شفافیت برقرار رہے اور کسی فریق کو اعتراض نہ ہونے پائے۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس تصور سے اتفاق کرتے ہوئے مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔ مگر جیسے ہی آپریشن شروع ہوا، تو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اس JIT رپورٹ کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا، جس میں پانچ سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز بتائے گئے تھے۔ بلکہ آپریشن کا رخ صرف ایم کیوایم کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ایم کیوایم کو نشانہ بنانے کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ کراچی آپریشن اس دن مکمل طور پر متنازع ہوگیا، جب مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث مختلف گروہوں کے علاوہ بقیہ جماعتوں میں موجود مسلح ونگز کو دانستہ نظر انداز کردیا گیا۔

لوگ خوف کے مارے زبان بند کیے ہوئے تھے۔ مگر ہم اس وقت سے مسلسل اظہاریوں اور ٹیلی وژن پروگراموں کے ذریعے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کو کون سنتا ہے۔ بلکہ بعض دوستوں نے ہم پر ایم کیو ایم کے حامی ہونے کا الزام بھی عائد کرنا شروع کردیا۔ ان کی تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس جماعت سے سیاسی یا نظریاتی اختلاف ہو، اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کے بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کی جائے۔ یہ ایک غلط اور غیر منطقی موقف ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں یا تنظیموں کے لیے مختلف رویوں اور ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

اصولی طور پر ہر متوشش شہری کو اپنے علم، تجربات اور ضمیر کی آواز پر معاشرے میں جنم لینے والی خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ریاستی مقتدرہ کے فیصلوں اور اقدامات کا کھل کر جائزہ لینے کا مکمل حق حاصل ہے۔ خاص طور پر ایسے اقدامات جن کے نتیجے میں کسی مخصوص کمیونٹی کے مجموعی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پسند اور ناپسند کے دائرے میں بند ہوکر معاملات و مسائل کو دیکھنے سے نہ صرف انصاف متاثر ہوتا ہے، بلکہ سماجی ڈھانچہ میں نفرتوں اور کدورتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وہ منافقانہ رویے ہیں جن کی وجہ سے جمہوری عمل ہی نہیں ریاست بھی غیر مستحکم ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ 22 اگست 2016ء کو بانی ایم کیو ایم کی تقریر کا آخری حصہ بلاشبہ قابل مذمت تھا۔ لیکن اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ایسا رہنما، جس کی تقریر، تحریر اور تصویر پر بغیر ٹرائل چلائے پہلے ہی جبراً پابندی عائد کرادی گئی ہو، جس کے سیکڑوں کارکنوں کو ماورائے آئین و قانون غائب یا قتل کردیا گیا ہو، جس کی جماعت کو دیوار سے لگایا جارہا ہو، اس کے منہ سے پھول جھڑنے کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔

وطن عزیز میں تو ان رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو بھی نظر انداز کردیا گیا، جنھوں نے کھلے عام ’’پاکستان کے حامی، اصل حرامی‘‘ جیسے نعرے بلند کیے۔ بلکہ ایک رہنما، جو PTI کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، انھوں نے 1979ء میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ بھارتی ٹینک پر سوار ہوکر پاکستان آئیں گے۔ فرق یہ ہے کہ وہ Son of Soul ہیں جب کہ مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کو اسٹیبلشمنٹ سمیت کوئی بھی ریاستی ادارہ Son of Soul نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے رہنما کو بغیر کسی مناسب عدالتی ٹرائل سیاسی عمل سے بے دخل کردیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ ریاست کے خفیہ اداروں کے پاس اگر ایسے شواہد موجود ہیں، جو بانی ایم کیو ایم کے کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی سے تعلق کو ثابت کرتے ہیں، تو انھیں عدالت میں پیش کرکے سزا دلوانے سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟ ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں اس طرح کی پابندی کو سوائے ذاتی عناد، بغض اور تعصب کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ کسی ایک فرد کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف گھناؤنی سوچ کا عملی مظاہرہ ہے۔

پاکستان کے بااختیار حلقوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ یہ ملک بنگالیوں اور مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کی پرامن سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، جس میں سندھی قیادت کی پارلیمانی جدوجہد بھی شامل ہے۔ خونریزی اس لیے ہوئی کہ ایک مخصوص علاقہ کے لوگوں نے احمقانہ اور جاہلانہ جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، چند درجن سکھوں کو قتل کرکے کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ اس کے بعد آگ وخون کا ایسا سیلاب آیا، جس نے عالمی جنگوں کو شرمادیا۔

اس پر ظلم یہ ہوا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والی مقتدر اشرافیہ نے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا ٹھیکہ بھی از خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کی احمقانہ سوچ اور غلط فیصلوں کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔ چھوٹے صوبوں سمیت مختلف کمیونٹیوں کو اپنی نوآبادیات بنانے کی خواہش میں تاریخ کو مزید مسخ کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ جن لوگوں کو پاکستانی بننے کا درس دے رہی ہے، ان کے بزرگوں نے اس ملک کے ساتھ اپنے قلبی اور روحانی تعلق اور سیاسی وسماجی کمٹمنٹ کی وجہ سے نقل مکانی کی تھی۔ جب کہ پوری حسیت، سیاسی وسماجی شعور اور فکر  و ادراک کے ساتھ پاکستانی ہونا قبول کیا تھا۔ یہ لوگ وہ نہیں جو رات برٹش انڈیا میں سوئے اور صبح آنکھ نئے ملک میں کھلی۔ اس پہلو کو بھی سمجھا جائے کہ جب مقامی آبادی میں ملک کا نظم و نسق چلانے والوں کا قحط الرجال تھا، تو ہجرت کر کے آنے والوں نے نئے ملک کے نظام مملکت کو انتہائی احسن طریقے سے چلاکر اس کے پاؤں پر کھڑا کیا۔ کیا یہ احسان کم ہے کہ جس ملک کے بارے میں سینئر کانگریسی رہنما ولبھ بھائی پٹیل نے دعویٰ کیا تھا کہ چھ ماہ نہیں چل سکے گا، اسے اپنے حسن انتظام سے بھارت سے آگے لے جاکر دکھا دیا۔ اس کے بعد سے آج تک کیا ہورہا ہے، سب کے سامنے ہے۔

پھر عرض ہے کہ بانی ایم کیوایم کے خلاف اگر ٹھوس شواہد موجود ہیں، تو انھیں عدالت میں لایا جائے اور کھلی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ بصورت دیگر کراچی کے وسائل پر ناجائز قبضہ کی خواہش میں شہر کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنے اور من پسند قیادت مسلط کرنے کی سازش سے باز رہا جائے۔ پاکستان سے محبت اور اس کے روشن مستقبل کا تقاضا ہے کہ خوامخواہ کی ٹھیکیداری سے گریز کرتے ہوئے علاقے Occupy کرنے کی نفسیات سے چھٹکارا پایا جائے۔ میرٹ اور شفافیت کا تقاضا ہے کہ تمام کمیونٹیوں کو ان کی اہلیت، صلاحیت اور کارکردگی کے مطابق آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے کھلے مواقع دیے جائیں۔

اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غیر جانبدارانہ عدالتی ٹرائل کے بغیر زباں بندی، تحریر پر قدغن اور تصویر کی اشاعت کی ممانعت آئین کے ساتھ کھلا مذاق اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عرض ہے کہ میں اپنی فکر اور سیاسی نظریات کی وجہ سے نہ اس جماعت کا حامی رہا ہوں اور نہ ہی ووٹر۔ یہ آپ (اشرافیہ) کی تنگ نظری، غلط اور متعصبانہ رویوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ میں اس جماعت کے حق میں مسلسل اظہاریے لکھنے پر مجبور ہوا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔