یہی وقت ہے درست فیصلے کا

شاہدہ حسین  منگل 17 جولائی 2018
ہر پانچ سال بعد عوام کو فیصلے کا موقع دیا جاتا ہے جس میں بھولے عوام پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں اور پھر اسی جذبے سے پورے پانچ سال اپنے پیارے دلارے لیڈر کو روتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر پانچ سال بعد عوام کو فیصلے کا موقع دیا جاتا ہے جس میں بھولے عوام پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں اور پھر اسی جذبے سے پورے پانچ سال اپنے پیارے دلارے لیڈر کو روتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وطن عزیز میں آج کل الیکشن کا بازارگرم ہے، تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں پورے زور و شور سے انتخابی مہم چلانےمیں مصروف ہیں۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آتےجارہے ہیں، ویسے ویسے بھانت بھانت کی بولیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ ہر طرف عجیب سا شور برپا ہے۔ شور اتنا ہے کہ کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا۔ سیاست کی سوجھ بوجھ ہے یا نہیں؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے! بس ہر کوئی اپنی ہی راگنی الاپ رہا ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں… اور لمحہ بہ لمحہ عوام کو ملکی سیاسی حالات سے باخبر رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ مگرعوام ہیں کہ باخبر ہونے کو تیار ہی نہیں!

پاکستان میں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں۔ یعنی ہر پانچ سال بعد عوام کو فیصلے کا موقع دیا جاتا ہے (یہ اور بات کہ اس موقع سے آج تک ٹھیک طرح سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا) جس میں بھولے عوام اپنی فہم و فراست سے، پورے جوش و خروش کے ساتھ، اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں اور پھر اسی جذبے کے ساتھ پورے پانچ سال اپنے پیارے دلارے لیڈر کو روتے ہیں… ظاہر ہے کہ رونا بھی خود ہی ہے کیونکہ لیڈر کو باضابطہ خود جو چنا تھا۔ اس میں بیچارے لیڈرکا کیا قصور؟ آپ خود بتایئے کہ پورے پانچ سال میں وہ آپ کے پاس آئے یا نہیں؟ (ویسے ہم نے تو سنا تھا کہ کسی کو بھی جاننے کےلیے ایک لمحہ بھی کافی ہوتاہے مگر ہم سترسال سے نہیں جان سکے۔)

اور تو اور، ہمارے پیارے لیڈر اپنے پانچ سالہ دورمیں جو بھی کرتے ہیں، عوام سے چھپا کر تھوڑا ہی کرتے ہیں۔ چاہے لوٹ مار، غبن، ظلم و زیادتی، اقربا پروری، مہنگائی، بجلی کا بحران، پانی کا بحران، گیس کا بحران، غرض یہ کہ کوئی بھی ایسا کام جس سےعوام کو تکیلف ہوتی ہو، سب کچھ قوم کے سامنے ہی تو کرتے ہیں۔ پھر یہ سادہ لوح عوام گلہ کس سے کرتے ہیں۔ سالہاسال ہر طرح جبر بےبسی سے برداشت کرتی ہے مگر افسوس! جب سب کچھ اس کے اختیار میں ہوتا ہے تو تب کبھی کسی کی مری ہوئی ماں سے اتنی ہمدردی ہوتی ہے کہ اپنے مرے ہوؤں کا بھی غم بھول جاتا ہےاور کبھی کسی کی بیماری اپنے ہر غم پر بھاری نظرآتی ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو! اپنی تمام مشکلات، تکالیف، درد، بےبسی، کسمپرسی کا بدلہ لینے کا اس سے بہترکوئی وقت نہیں۔ کل تک آپ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے، آج یہ مفاد پرست لوگ آپ کےمحتاج ہیں اورنہایت عاجزی (جھوٹی ہی سہی) کے ساتھ آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہونے سے پہلے اپنی محرومیوں اور اپنے ساتھ ہونے والے ہر ظلم و زیادتی کو ضرور ذہن میں رکھیےگا… اور اگر آپ کی یادداشت کمزور ہے تو کسی جاننےوالے پوچھ لیجیے۔

اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتے تو برائے مہربانی آئندہ پانچ سال میں مزید رونے کےلیے تیار رہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہدہ حسین

شاہدہ حسین

بلاگر نے ماس کمیونی کیشن اینڈ میڈیا میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور آج کل پبلک نیوز میں بطورایسوسی ایٹ پرڈیوسر کام کررہی ہیں۔ اس سے پہلے سیون نیوز اور ایم ریڈیو پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ کتب بینی اور شاعری کا خصوصی شوق رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔