لاہورکا حلقہ این اے 128: ن لیگ اورتحریک انصاف میں کانٹے دارمقابلہ متوقع

آصف محمود  منگل 17 جولائی 2018
تمام امیدوار اور ان کی حامی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس حلقے کا معرکہ سر کرسکیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تمام امیدوار اور ان کی حامی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس حلقے کا معرکہ سر کرسکیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

 لاہور: لاہورکا حلقہ این اے 128 رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا حلقہ شمار ہوتا ہے ، ماضی کے حلقہ این اے 124 کی شہری آبادی اور این اے 130 کی دیہی آباد کو ملا کر این اے 128 کے نام سے نیا حلقہ بنایا گیا ہے۔

اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 45 ہزار 763 ہے جن میں ایک لاکھ 97 ہزار 264 مرد اور ایک لاکھ 48 ہزار 499 خواتین شامل ہیں، اس حلقے میں شامل علاقوں کی بات کی جائے تو شالامار باغ کے قریب سک نہر چوک سے دائیں جانب لیسکو دفاتر کی جانب سے کرول گھاٹی تک جانیوالی سڑک کے مشرقی جانب کا علاقہ اس حلقے میں شامل ہے؛ اسی طرح سک نہر سے بائیں جانب ایک سڑک کینال روڈ لال پل کے قریب نکلتی ہے۔

اس سڑک کے مشرقی جانب کے علاقے این اے 128 میں شامل ہیں۔ سک نہر، لال پل اور کرول گھاٹی سے پاکستان اور بھارت کی سرحد تک کا علاقہ اس حلقے میں شامل ہے۔ اہم علاقوں کی بات کی جائے تو ان میں سک نہر، کرول گھاٹی، کرول گاؤں، جھگیاں، تلواڑہ، بھینی، اعوان ڈھائی والہ، جنڈیالہ، بھسین، دوگیج، واہگہ بارڈر، ڈیال، لکھن شریف، ڈوگرائے کلاں، اتوکے اعوان، باٹاپور، مناواں، ڈیرہ گجراں، مومن پورہ، سلامت پورہ، دروغہ والا، آخری منٹ اورلال پل سے کھارا پل تک لاہور کینال کے شمالی علاقے اس این اے میں شامل ہیں۔
این اے 128 میں مجموعی طورپر 248 پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں جن میں 48 مردوں کے لیے، 48 خواتین کے لیے جبکہ 152 مشترک پولنگ اسٹیشن ہیں؛ جبکہ پولنگ بوتھ کی تعداد 914 ہے۔ ان میں 485 پولنگ بوتھ مردوں جبکہ 429 خواتین کے لیے بنائے گئے ہیں۔

اس حلقے میں کئی برادریاں آباد ہیں تاہم زیادہ آبادی راجپوت اور اعوان برادری کی ہے جو بڑی برادریاں شمار ہوتی ہیں۔ اس حلقے میں ویسے تو 14 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں تاہم ان میں سے 8 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، باقی امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن نے سابق رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر کو میدان میں اتارا ہے۔ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے چوہدری اعجاز ڈیال ہیں جو سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور دوبار ضلع کونسل لاہور کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے چوہدری منظور حسین ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، وہ دو بار یونین کونسل کے ناظم رہ چکے ہیں۔ تحریک لبیک اسلام کے سربراہ ڈاکٹراشرف آصف جلالی بھی میدان میں ہیں، ان کے بھائی عابد جلالی نے 2013 میں ایم پی اے کا الیکشن لڑا تھا اور40 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔ پیپلزپارٹی نے سید ظفر علی شاہ کو ٹکٹ دیا ہے تاہم وہ مقابلے کی دوڑ میں شامل نظر نہیں آتے۔ اسی طرح راحیل حسین ، سید عقیل حیدرعباس اور سید منظورعلی گیلانی بھی آزاد امیداروں کے طور پر میدان میں ہیں۔

سیاسی صورتحا ل کی بات کی جائے تومسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ 2013 کے الیکشن میں این اے 124 اور این اے 130 دونوں حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے تاہم اس بار مسلم لیگ ن نے ٹکٹ شیخ روحیل اصغر کو دیا ہے جس کی وجہ سے سہیل شوکت بٹ کا گروپ ناراض ہے۔ بظاہرسہیل شوکت بٹ نے پارٹی کویقین دلایا ہے کہ وہ ناصرف شیخ روحیل اصغرکی حمایت کریں گے بلکہ اس کی انتخابی مہم میں بھی شریک ہوں گے، لیکن عملی طور پر ایسا نظرنہیں آرہا، خود سہیل شوکت بٹ کے ایک کزن اور سابق ایم پی اے حاجی اکرم عرف بھیلا بٹ کے صاحبزادے عمران بٹ اسی حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں جواس بات کا ثبوت ہے کہ سہیل شوکت بٹ کے حامی اپنے علاقوں میں روحیل اصغر کو سپورٹ نہیں کریں گے؛ حالانکہ سہیل شوکت بٹ خود شیخ روحیل اصغر کی وجہ سے الیکشن سے دستبردار ہوچکے ہیں۔

این اے 128 میں شامل صوبائی حلقہ 155 میں سابق ایم پی اے ملک غلام حبیب اعوان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں اور ان کے سہیل شوکت بٹ کے ساتھ اختلافات ہیں۔ ملک غلام حبیب اعوان کے چھوٹے بھائی اسی علاقے سے یونین کونسل کا الیکشن ہارگئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے یہ اندرونی اختلافات این اے 128 کے دیجی علاقے میں شیخ روحیل اصغر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ شہری حلقے کی بات کریں تو یہاں شیخ روحیل اصغر کو تحریک لبیک اسلام کے سربراہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کی مخالفت کا سامنا ہے۔ تحریک لبیک اسلام بھی سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک توڑے گی اور اس کا فائدہ تحریک انصاف اٹھائے گی۔

این اے 128 میں تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری اعجاز ڈیال بھرپورطریقے سے انتخابی مہم چلارہے ہیں، انہیں اس طرح کی مخالفت کا سامنا نہیں ہے جس طرح کی صورتحال سے مسلم لیگ ن دوچار ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ تحریک انصاف یہ سیٹ جیت سکتی ہے۔ کیونکہ تمام تراندرونی مخالفت کے باوجود شیخ روحیل اصغرایک تجربہ کار سیاستدان مانے جاتے ہیں۔

اس حلقے میں پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کی نسبت تحریک لبیک اسلام زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ تاہم تمام امیدوار اور ان کی حامی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس حلقے کا معرکہ سر کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔