سیاسی جماعتوں کے منشور اور مزدور

ایم آئی خلیل  جمعرات 9 مئ 2013

ماہ مئی دنیا والوں کو یوم مئی کے نام پر مزدوروں کے حقوق یا دلاتا ہے۔ پاکستانی اس ماہ کو الیکشن کے نام پر یاد رکھیں گے۔ الیکشن کے موقعے پر ہر سیاسی جماعت اپنا منشور پیش کرتی ہے اور یہ سیاسی جماعتیں مزدوروں کو حقوق دلانے کے نام پر بہت سے وعدے اور یقین دہانیاں کراتی ہیں۔

گزشتہ 66 برسوں سے کیے گئے وعدے اگر سچ کا روپ اختیار کرلیتے اور یقین دہانیوں پر عمل درآمد ہوچکا ہوتا تو آج مزدوروں کی حالت زار ایسی نہ ہوتی۔ مزدور اور محنت کش عامل پیدائش Factor of Production کا سب سے اہم اور فعال عامل ہوتا ہے، لیکن دنیا میں بھی اور خصوصاً پاکستان میں ان سے کام بہت زیادہ لیا جاتا ہے اور معاوضہ دیتے وقت انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کل لیبر فورس کی تعداد 5 کروڑ 63 لاکھ 33 ہزار ہے، ورلڈ بینک انڈیکیٹرز کے مطابق پاکستان میں فیمیل لیبرکل لیبر فورس کا 20 فیصد ہے، ملک میں بیروزگاری کی شرح 6 فیصد تک بتائی جاتی ہے۔ الیکشن کے موقعے پر منشور پیش کرتے وقت سیاسی جماعتیں جس بات کا سب سے زیادہ پرچار کرتی ہیں وہ مزدوروں کی تنخواہوں کا تعین ہوتا ہے۔ اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں نے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 15 ہزار سے 18 ہزار تک کردینے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے البتہ بعض جماعتوں نے اس میں اضافے کو افراط زر سے جوڑا ہے۔

بعض افراد کا خیال ہے کہ مزدور کی کم ازکم تنخواہ فی تولہ سونے کی قیمت کے برابر کی جائے۔ ایک وقت تھا جب فی تولہ سونے کی قیمت محض ایک ہزار روپے تھی اس وقت مزدور کی اجرت تین سو روپے ماہوار تھی۔ ایسے میں بھی مزدور کے شب و روز بخوشی گزرتے تھے۔ مزدور طبقہ بچت بھی کرلیا کرتا تھا۔ آج تو اچھے خاصے خوشحال افراد بھی بچت نہیں کرپاتے۔ اس لیے کہ روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ اور مہنگائی کے گراف میں تیزی سے اضافے کے باعث مزدور ہو یا تنخواہ دار طبقہ ان کے چند دن تو خوشی سے گزرتے ہیں، پھر ماہ کے چند ایام جفاکشی سے گزر رہے ہوتے ہیں کہ مہینے کے آخر تک پہنچتے پہنچتے فاقہ کشی تک نوبت آجاتی ہے۔

کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں اس معاشی پہلو کی طرف توجہ نہ دی کہ کس طرح روپے کی قدر کو مضبوط کیا جائے گا تاکہ افراط زر کی تباہ کاریوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہ کہہ دینا کہ تنخواہوں میں اضافے کو افراط زر سے منسلک کردیا جائے گا کسی حد تک درست ہے، لیکن افراط زر کے گراف کا حقیقی معنوں میں درست موازنہ کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے لہٰذا کم ازکم تنخواہ جلد ہی کم محسوس ہونے لگتی ہے اور مزدور طبقہ معاشی بدحالی کی طرف گامزن ہونے لگتا ہے۔

پاکستان میں لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ شعبہ زراعت سے منسلک ہے۔ جن کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے لیے کئی سیاسی جماعتوں نے خاموشی کا رویہ اختیار کررکھا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق زراعت و جنگلات وغیرہ میں لیبر فورس کا 45 فیصد حصہ منسلک ہے۔ مینوفیکچرنگ جس میں صنعتی مزدوروں کو شامل کیا جاتا ہے وہ کل لیبر فورس کا 13 فیصد سے زائد ہیں، پاکستان کی کل لیبر فورس کا تقریباً9 فیصد شعبہ تعمیرات سے منسلک ہے۔

ہول سیلز اور ریٹیلرز کے پاس جو افراد کام کاج کر رہے ہوتے ہیں وہ لیبر فورس کا 15.2 فیصد ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک محنت کار جن میں ڈرائیور کلینڈر وغیرہ بھی شامل ہیں یہ لوگ پاکستان کی لیبرفورس کا 5.3فیصد ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو سوائے صنعتی مزدوروں کے کسی اور شعبے کے لیبرز کے بارے میں سیاسی جماعتیں اور حکومت سب نے بے اعتنائی برت رکھی ہے۔ پاکستان کی معیشت جب ہی مضبوط ہوگی جب معیشت کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے حقوق کا پورا خیال رکھا جائے گا۔

گزشتہ 66 برسوں میں پاکستان میں چائلڈ لیبر کے بارے میں انتہائی بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ ایک غیر سرکاری ادارے کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ملک میں 10 سال سے کم عمر 60 لاکھ بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ آئین کے تحت بچوں کا تحفظ ان کا خیال رکھنا ان کے حقوق کی پاسداری کرنا یہ سب حکومت کا کام ہے۔ سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے منشور میں ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے پروگرام پیش کریں۔

اگرچہ پاکستان میں آئین کی کئی شقوں کے ذریعے بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ لیکن درحقیقت ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مثلاً آئین کے ایک آرٹیکل کے مطابق بچوں کے لیے پرخطر ملازمت کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک اور آرٹیکل اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر سے تعلق کئی ایکٹ موجود ہیں۔ مثلاً ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 ایمپلائنمنٹ آف چلڈرن رولز 1995 ۔

اس کے علاوہ کئی اور آرڈی نینس بھی موجود ہیں جوکہ ورکرز سے متعلق ہیں مثلاً روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس 1961۔شاپس آرڈی نینس 2001۔ دراصل پاکستان میں جتنے بھی اس قسم کے قوانین موجود ہیں ان سب کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا تہیہ کرنا چاہیے اور ان قوانین پر یقینی طور پر عملدرآمد کرانے کو اپنے منشور کا حصہ بنانا چاہیے۔

لیکن اصل رونا تو اس بات کا ہے کہ پاکستان میں بلاشبہ مزدوروں کی بات کی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر کا بھی کہیں نہ کہیں ذکر ہوہی جاتا ہے۔ لیکن اس گلستاں کے پھول وہ اسٹریٹ چائلڈ جن کی تعداد پاکستان میں 12 لاکھ بتائی جاتی ہے وہ کہاں گئے؟ ہر سال اسٹریٹ چائلڈ کا عالمی دن بھی منالیا جاتا ہے لیکن ہم زمین کے ان تاروں کو بھول جاتے ہیں جو روزانہ ہمیں سڑکوں، گلیوں، بازاروں، فٹ پاتھوں پر نظر بھی آتے ہیں جو شب و روز کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔

گلیوں کے یہ تارے ماؤں کے جگر گوشے والدین کے راج دلارے پھول سے بچے جنہیں دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد روٹی کے چند ٹکڑے میسر آجائیں تو اپنی قسمت پر ناز کرتے ہیں اور شکر بجالاتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ ان کے ماں باپ کہاں ہیں؟ ان میں بہت سے یتیم ہیں، بے آسرا و بے سہارا ہیں، کچھ کی ماؤں نے شاید بھوک کے دیو سے خوف کھاکر اپنے دل کا کلیجہ چیر کر اپنے لال کو، اپنی آنکھوں کو بے نور کرکے شاید اپنے لاڈلے کو دھرتی ماں کے حوالے کردیا ہو کہ رات کو بھوکے سونے کے بجائے ان سڑکوں پر رہنے سے انہیں روٹی کے چند لقمے نصیب ہوجائیں گے۔

ان کے پیٹ بھر جائیں تو شاید غریب بے بس دکھیاری ماں کو قرار آجائے۔ چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہو یا اسٹریٹ چلڈرن ڈے منایا جاتا ہو۔ لیکن یہ بچے تو پھر بھی سردراتوں کو ٹھٹھر کر شب بسری کرتے ہیں یا تپتی ہوئی دوپہر میں سڑک پر ننگے پیر چل رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ملک میں ان بچوں کی تعداد 12 لاکھ بتائی جاتی ہے، لیکن ان میں بچیوں کی تعداد کتنی ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی اعدادوشمار میسر نہیں ہیں۔ حکومت سے لے کر تمام سیاسی جماعت کے کاندھوں پر ان کی ذمے داری آتی ہے، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر رہنے والے ان بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی خوراک، رہائش کا انتظام بھی حکومتی فرائض بھی شامل ہے۔ ان سڑکوں اور فٹ پاتھ پر رہنے سے ان کی جس طرح منفی تربیت ہورہی ہوتی ہے اس کے نتائج سب کے سامنے ہے۔

بہرحال چائلڈ لیبر کا مسئلہ ہو یا اسٹریٹ چلڈرنز کا یا مزدوروں کے حقوق کا۔ ان سب کی خلاف ورزی پر قانون میں جرمانہ بھی ہے اور قید کی سزا بھی ہے، لیکن ان تمام قوانین پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ بہت سے قوانین جو انگریزی دور کے ہیں آج تک ویسے ہی چلے آرہے ہیں ۔ حالات اور موقعے کی مناسبت سے ان میں بھی تبدیلی کی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں مزدوروں کے حقوق کے بارے میں چاہے کتنے بھی بلند دعوے کرتے رہیں، لیکن ان کے ان دعوؤں کی حقانیت مزدوروں سے متعلق پروگرام پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کریں گے۔ اس کے علاوہ برسراقتدار پارٹی کو چائلڈ لیبر اور اسٹریٹ چلڈرن کا مسئلہ بھی فوری طور پر حل کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔