ووٹ کس کو دینا چاہیے؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 9 مئ 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کراچی کے قومی اور صوبائی حلقے سے بحیثیت آزاد امیدوار کھڑے ہونے والے ہمارے ایک دوست کا نعرہ ہے کہ ووٹر بھی آزاد اور امیدوار بھی آزاد، یعنی ووٹرز کے لیے مکمل ’’آزادی اظہار‘‘ ہے کہ وہ چاہیں تو انھیں ووٹ دیں اور چاہیں تو کسی بھی امیدوار کو ووٹ دیں۔ ہم بطور ووٹر اپنے دوست کو ووٹ دینے کے قائل نہیں ہیں، نہ ہی ان کو ووٹ دینے کی اپیل کریں گے، اس کی وجہ کیا ہے؟ یعنی پھر ووٹ کس کو دیا جائے؟ اس کے متعلق بات آگے ہوگی لیکن ان کی انتخابی مہم کی ندرت ضرور بیان کے قابل ہے لہٰذا اس کا تذکرہ پہلے کیا جانا ضروری ہے۔

موصوف کا کہنا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جو ہمارے جانے پہچانے اور آزمائے ہوئے چہروں کو ووٹ دینا پسند نہیں کرتی۔ ان کی انتخابی مہم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے دیگر جماعتوں کی طرح اشتہارات اور ذرایع ابلاغ کے دیگر ذرایع کو استعمال نہیں کیا اور فضول خرچی یا غلط روایت سمجھ کر اس قسم کی مہم کو رد کردیا البتہ دور جدید کی سہولت فیس بک کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل وہ پمفلٹ اور اسٹیکرز اپنے حلقہ میں تقسیم کریں گے جس میں ان کا مختصر لفظوں میں پیغام ہوگا، اور پیغام یہ ہوگا کہ عوام ان کو ووٹ نہ دیں بلکہ تمام امیدواروں کے ماضی کے کردار اور منشور کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح انھوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی نئی روایت ڈالنے کی کوشش کی ہے جس میں پڑھے لکھے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے مواقعے اور ترغیب فراہم کرنا بنیادی مقصد ہے۔

یقیناً پاکستان کا ایک اہم مسئلہ انتخابات میں ووٹرز کو اس طرف راغب کرنا بھی ہے کہ وہ ووٹ ضرور ڈالیں، بے شک ان کے لیے مثالی امیدوار موجود نہ ہو تب بھی۔ راقم نے اس سے قبل بھی اور پچھلے الیکشن میں بھی اپنے کالموں کے ذریعے قارئین کو رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ ووٹ کیوں دیں اور کس کو دیں؟ اب انتخابات سر پہ آن پہنچے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ووٹرز کو آگاہ کیا جائے کہ ووٹ ڈالنا کیوں اور کس قدر ضروری ہے؟ یہ روزمرہ کے مشاہدہ کی بات ہے کہ جب راہ چلتے ہوئے بھی کہیں دو افراد کو لڑتے دیکھا جائے تو راہ گیر بھی بیچ بچاؤ کرانے کے لیے آجاتے ہیں اور معاملہ ختم کراتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت اور معاشرے کی ضرورت بھی ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہو تو اس کو روکنے کے لیے کوشش کی جائے۔

سوال یہ ہے کہ جب کئی لوگوں میں پارلیمنٹ کی نشست حاصل کرنے کے لیے کشمکش جاری ہو تو کیا ان فریقین میں جو زیادہ غلط ہو اس کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے؟ جب کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر ہم یہ کوشش نہ کریں اور یہ سوچ کر الگ ہوجائیں کہ سارے ہی غلط کردار کے لوگ ہیں اور اس طرح زیادہ غلط کردار کا شخص انھی ووٹرز کے حلقہ کا نمایندہ بن بیٹھا تو پھر اس حلقے کی عوام کا نقصان کا ذمے دار کون ہوگا؟ گویا ووٹ نہ ڈالنا ایسی بڑی حماقت ہے ۔

جس میں ہم اپنے اوپر مسلط ہونے کے لیے تمام دروازے کھول دیتے ہیں کہ غلط کردار کے لوگ کسی دورازے سے بھی ہمارے نمایندے بن بیٹھیں اور پھر ہمارا ہی استحصال کریں۔دوسرا اہم مرحلہ اور مسئلہ یہ ہے کہ کس جماعت اورکس امیدوار کو ووٹ دیا جائے؟ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، نہایت آسان اور سادہ سا ہے اگر تھوڑا سا غور و خوض کرلیا جائے۔ آئیے ہاتھ میں قلم کاغذ لے کر اس کے لیے صرف 5 منٹ ورک کریں۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی کامیاب جمہوریت ہے وہاں ہمارے ملک کی طرح درجنوں جماعتیں اور ہزاروں اقسام کے امیدوار انتخابات میں کھڑے نہیں ہوتے بلکہ بہت سے بہت دو یا تین جماعتوں کے درمیان ووٹرز انتخاب کرکے اپنا ووٹ ڈالتے ہیں، اسی لیے وہاں کسی ایک جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے اور اپنا وقت پورا کرتی ہے جب کہ کئی جماعتوں کے تعاون سے قائم ہونے والی حکومت کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اس کا مشاہدہ آپ اور ہم سب کرچکے ہیں۔

لہٰذا کاغذ قلم اٹھا کر پہلے قومی سطح کی بڑی جماعتوں کے نام لکھ لیجیے، پھر ان جماعتوں کے ماضی کے کردار کا جائزہ لیں، ان کے منشور کا جائزہ لیں اور پہلے نمبر پر جس جماعت کو سب سے بہتر سمجھیں اس کا نام لکھیں، اسی طرح پھر دوسری اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کا نام لکھیں۔ یہ فیصلہ کرتے وقت یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کون سی جماعت بہترین خارجہ پالیسی رکھتی ہے، ملک کو چلانے کے لیے کیا بہتر وژن رکھتی ہے اور عوامی مسائل کے حل کے ضمن میں اس کے مشاہدات اور تجاویز کیا ہیں؟

اس کے بعد اپنے حلقے سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیجیے کہ ان تینوں جماعتوں کے امیدواروں میں کون سا امیدوار کتنے پانی میں ہے، مثلاً یہ کہ مذکورہ امیدوار اور اس کی جماعت آپ کو اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے؟

اسی طرح یہ دیکھیے کہ وہ آپ کے حلقہ میں کہاں رہتا ہے (یا نہیں رہتا؟) یعنی آپ کی دسترس میں ہے بھی یا نہیں۔اس کے بعد اہم ترین زاویہ اس امیدوار کی جماعت اور خاص کر خود امیدوار کا کردار ہے۔ کردار کا جائزہ دو پہلوؤں سے لیجیے ایک یہ کہ اس کے سیاسی فیصلے اور بصیرت کیسی ہے؟ ماضی کی کیسی تھی؟ اب اس کا وژن کیا ہے؟ دوسرا پہلو یہ کہ وہ کس قدر ایماندار اور امانت دار ہے؟ اس کا طرز زندگی پہلے کیسا تھا، اب کیسا ہے؟ ماضی میں کرپشن (مالی یا اخلاقی) کا دھبہ تو نہیں؟ اگر دین دار ہے تو صرف نماز پڑھنے اور داڑھی رکھنے کی حد تک؟ یا واقعی باعمل اچھا انسان اور مسلمان بھی ہے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے میں سستی بھی کرتی ہے، ایک تعداد جعلی اور بوگس ووٹ کی شکایت بھی کرتی ہے، اس سلسلے میں مشاہدہ کیا ہے کہ دوپہر لنچ سے قبل ووٹ ڈالا جائے تو یہ مسئلہ بہتر حد تک کنٹرول ہوسکتا ہے کیونکہ (راقم کے ایک دوست کے مطابق) لنچ سے قبل تک دو نمبر ووٹنگ نہیں ہوتی، جعلی ووٹ ڈالنے والے عناصر مشاہدہ کرتے ہیں اور جو ووٹر لنچ تک نہیں پہنچتے ان کی نشاندہی حاصل کرکے ان ہی کے ووٹ کسی اور ذریعے سے ڈلوا دیے جاتے ہیں، لہٰذا اگر عوام صبح ہی سے گھروں سے نکل کر لائن میں لگ جائے تو جعلی ووٹ ڈالنے کے مواقع کم ہوجائیں گے۔

سیاسی انتخابی عمل سے بیزار لوگوں کے لیے ایک اہم مشورہ ہے کہ اگر آپ کے معیار کے مطابق کوئی شخص ووٹ حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے تو ووٹ نہ ڈال کر جعلی ووٹنگ کے مواقع بڑھانے کے بجائے اس جماعت یا امیدوار کے خلاف ووٹ ڈالیں جس کے بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے کا امکانات ہوں یعنی ووٹ دوسرے نمبر پر مضبوط امیدوار کو ڈالیں، جن حلقوں میں کمپٹیشن زیادہ ہوتا ہے اور امیدوار کم ووٹوں سے جیت جاتے ہیں وہاں تمام سیاسی پارٹیاں اپنے حلقے کے ووٹر کا دل جیتنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ایسا کرنے سے آیندہ وہ بھی کامیاب ہوسکتی ہیں۔

اس عمل سے عوام کا فائدہ ہوتا ہے اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار پر عوامی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہی کچھ مغرب میں ہے کہ جہاں ایک چھوٹا سا اسکینڈل منظر عام پر آجائے تو حکومتیں ہل جاتی ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ بھاری اکثریت سے نہیں جیتے اور جتنے ووٹوں سے بھی جیتے ہیں وہ ووٹرز اپنا فیصلہ کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔ ووٹرز کے پاس کمپٹیشن بڑھانے کا بھی ایک موثر ہتھیار ہے۔ جن حلقوں میں کمپٹیشن نہیں ہوتا اور پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں امیدوار ہی جیت جائے گا وہاں کا امیدوار انتخابات کے بعد بھی حلقے کے عوام پر توجہ نہیں دیتا کہ اسے مکمل یقین ہوتا ہے کہ وہ کام کرے یا نہ کرے اسے عوام نے جتوانا ہی ہے۔

یاد رکھیے امیدواروں کے درمیان جتنا کانٹے کا مقابلہ ہوگا ووٹرز یعنی عوام کی اہمیت اور حیثیت اتنی ہی زیادہ بڑھے گی۔ آئیے اپنے اور ملک کے مستقبل کی خاطر کاغذ قلم لے کر نسلی، لسانی، مذہبی اور دیگر بنیادوں سے ہٹ کر ہر جماعت اور امیدوار کا پوری غیر جانبداری سے جائزہ لیں اور صبح صبح اول وقت میں پولنگ اسٹیشن پر پہنچ کر اپنا ووٹ ڈالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔