ناگہانی اموات

شکیل فاروقی  منگل 17 جولائی 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

جب یہ خبر پڑھی کہ ایک نوجوان 22 سالہ مزدور ایک بلڈنگ کی چوتھی منزل پر رنگ کرتے ہوئے اچانک گر کر ہلاک ہوگیا تو بڑا دکھ ہوا۔ بے شک انسان فانی ہے اور موت ہر ایک کو آنی ہے لیکن اس قسم کی ناگہانی موت پر شدید صدمہ ایک فطری امر ہے۔ انسان خواہ امیر ہو یا غریب جان ہر ایک کی پیاری ہوتی ہے۔ غریب بے چارے کے پاس تو پسماندگان کے لیے کوئی اثاثہ بھی نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اس کی موت کے بعد اس کے بال بچے رل جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ نفسانفسی کے اس دور میں ویسے بھی ہر ایک کو بس اپنی اور اپنے اہل خانہ کی فکر ہے۔

دل میں رہ رہ کر یہی خیال آرہا ہے کہ ایسے بدنصیب لوگوں کا اللہ کے سوا کوئی اور والی وارث نہیں۔ کسی بھی شہری کی جان کی حفاظت ریاست کا اولین فریضہ ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو تو صرف اپنے مفادات سے دلچسپی ہے۔ ان کی بلا سے کوئی جیے یا مرے۔ البتہ الیکشن کے زمانے میں انھیں عوام ضرور یاد آجاتے ہیں جن کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے وہ ان سے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور سبز باغ دکھاتے ہیں۔ پھر جب الیکشن کا زمانہ گزر جاتا ہے اور اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو معاملہ یہ ہوتا ہے کہ رات گئی بات گئی۔

گزشتہ دو برسوں سے قوم میڈیا کی رہنمائی میں کرپشن، آف شور کمپنیوں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں جیسے معاملات میں اس قدر مصروف ہے کہ پانی، تعلیم، صفائی اور ماحولیات جیسے معاملات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور اہم اور فوری توجہ کا معاملہ بھی ہے اور وہ ہے ناگہانی واقع ہونے والی حادثاتی اموات کا، جن سے بچا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اسے اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ان حادثاتی اموات کے نتیجے میں بے شمار قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں، جس کا خمیازہ مرنے والوں کے لواحقین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی اموات کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔

اکثر و بیشتر باران رحمت بھی باران زحمت بن جاتی ہے اور لوگ یا تو ڈوب کر مر جاتے ہیں یا بوسیدہ عمارتیں گرنے یا بجلی کے کرنٹ لگ جانے سے ناحق ہلاک ہوجاتے ہیں۔ متعلقہ اداروں پر ان ہلاکتوں کی ذمے داری عائد ہوتی ہے لیکن باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ حادثے کا شکار ہونے والے بے موت مارے جاتے ہیں۔ تقریباً ہر سال بارش کے موسم میں یہی تماشا ہوتا ہے لیکن محض وقتی ہاہاکار اور شور شرابے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر معاملہ دب جاتا ہے اور کسی کے خلاف نہ کوئی ایکشن لیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی تدارک کیا جاتا ہے۔

کراچی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پانی کی نکاسی کے گندے نالوں پر ہر طرف ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہے۔ یہ تجاوزات متعلقہ اداروں کی غفلت اور ملی بھگت سے قائم ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے نالوں پر تو باقاعدہ پختہ عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ گندے نالے کوڑے کرکٹ اور کچرے سے اس بری طرح اٹ چکے ہیں کہ جب تک ان پر تعمیر کی گئی ناجائز عمارتیں ہٹائی نہیں جائیں گی تب تک ان کی صفائی ممکن نہیں ہوگی، تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ان گندے نالوں کی صفائی کا کام شروع ہوچکا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جو کام بلدیاتی اداروں کی ذمے داری میں ہونا چاہیے تھا اس کا نوٹس سپریم کورٹ کو لینا پڑا۔ برسات کا موسم سر پر آن پہنچا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ یہ کام بلاتاخیر نہایت تیزی کے ساتھ بارشوں سے پہلے مکمل ہوجانا چاہیے تاکہ کراچی کے شہری پریشانی اور جانی و مالی نقصان سے بچ جائیں۔

وطن عزیز میں ہونے والی ناگہانی اموات کا ایک اور بڑا سبب ٹریفک کے جان لیوا حادثات ہیں، جو روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,500 افراد ٹریفک حادثات کے نتیجے میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں، جن کی غالب اکثریت عام آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ صرف کراچی میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1000 سالانہ ہے۔ شہر میں سگنل فری سڑکوں کے نظام کے رائج ہونے کے بعد سے پیدل سڑک عبور کرتے ہوئے شدید حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دگنی ہوگئی ہے۔

پورے ملک میں ٹریفک حادثات کی شرح میں انتہائی تشویش ناک اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے سڑکیں روز بروز خون انسانی سے رنگین ہو رہی ہیں۔ یہ حادثات شہر کی اندرونی سڑکوں پر بھی پیش آرہے ہیں اور شاہراہیں بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ ٹریفک کے اکثر و بیشتر حادثات ڈرائیوروں کی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ بے تحاشا اوور اسپیڈنگ اور اپنے سے آگے والی گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کی کوشش بھی ٹریفک حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ ٹریفک حادثات کا دوسرا بڑا سبب اوور لوڈنگ ہے جس کا مظاہرہ کراچی کی بسوں سے زیادہ منی بسوں اور کوچز میں روزانہ صبح و شام دکھائی دیتا ہے، جو شہر کی ٹریفک پولیس کی کھلی نااہلی اور چشم پوشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پرانی اور خستہ حال ان فٹ گاڑیاں بھی ٹریفک حادثات کا ایک بڑا سبب ہیں جس کی ذمے داری فٹنس چیک کرنے والے متعلقہ ادارے پر عائد ہوتی ہے، جس کے کرتا دھرتا اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ اس میں ان کی غفلت یا چشم پوشی شامل ہوتی ہے جس کے بغیر ان فٹ گاڑیوں کا سڑکوں پر چلنا ممکن نہیں۔

اناڑی اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے ڈرائیور بھی ٹریفک کے سنگین حادثات کا ایک بہت بڑا سبب ہیں، جس کی اصل ذمے داری پولیس کے متعلقہ محکمے پر عائد ہوتی ہے جس کا فرض سخت چیکنگ کرنا ہے تاکہ کوئی غیر لائسنس یافتہ یا جعلی لائسنس رکھنے والا شخص گاڑی روڈ پر لے کر نہ نکلے اور انسانی جانوں کے ساتھ نہ کھیلے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مقررہ عمر سے کم عمر کے ناپختہ اور ناتجربہ کار ڈرائیور بھی گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کے ناگہانی حادثات میں لوگوں کی جانیں ناگہانی ضایع ہوجاتی ہیں۔

سڑکوں کے ٹوٹے پھوٹے ہونے کی وجہ سے بھی اکثر ٹریفک کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں جس کے لیے سڑکوں کی مسلسل دیکھ بھال اور بروقت مرمت کا اہتمام انتہائی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر جگہ جگہ غیر ضروری رکاوٹوں اور غیر معیاری اسپیڈ بریکرز کی موجودگی بھی ٹریفک حادثات کی ایک وجہ ہے، جس کی جانب فوری توجہ دینا بڑا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ شاہراہوں پر اسپیڈ چیکنگ کے لیے کیمرے نصب کیے جائیں جیساکہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ بسوں، کوچز، ڈمپرز، ٹریلرز اور دیگر ہیوی گاڑیوں کے لیے اوقات کا تعین کیا جائے ان کی رفتار کی حد مقرر کی جائے اور خلاف ورزی کرنے کی صورت میں سخت سزائیں دی جائیں اور بھاری جرمانے بھی عائد کیے جائیں۔ اس کے لیے ٹریفک پولیس کی فرض شناسی اور ایمانداری اولین شرط ہے۔

وطن عزیز میں آتشزدگی کے واقعات بھی آئے دن ہوتے رہتے ہیں جن میں فیکٹریوں، کارخانوں اور کیمیائی اشیا کے گوداموں میں لگنے والی آگ کے واقعات عام ہیں۔ ان واقعات میں حادثاتی طور پر بہت سی قیمتی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں اور متاثرہ خاندان تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے حادثات زیادہ تر بجلی کے شارٹ سرکٹ اور احتیاطی تدابیر کے فقدان کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فائر فائٹنگ کا جدید انتظام اور نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بڑا بھاری مالی و جانی نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹری مالکان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے متاثرین کی کوئی معقول داد رسی بھی نہیں ہوتی اور مرنے اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو کوئی معاوضہ بھی نہیں مل پاتا اور وہ بے چارے محض روتے پیٹتے اور ہاتھ ملتے ہوئے رہ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ کئی منزلہ عمارتوں میں آگ بجھانے کا معقول انتظام نہ ہونے وجہ سے بھی لوگ ناگہانی اموات کا شکار ہوجاتے ہیں اور بڑے شہروں میں اس قسم کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں جن کے تدارک کے لیے لازمی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ پرانی اور بوسیدہ عمارتوں کے ڈھے جانے کے نتیجے میں بھی لوگ دب کر مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناقص میٹریل کے استعمال سے تعمیر کی جانے والی عمارتوں کے اچانک انہدام کی وجہ سے بھی لوگوں کے ملبے تلے دب کر مرجانے کے حادثات بھی کہیں نہ کہیں رونما ہوتے رہتے ہیں جس کی ذمے داری ان عمارتوں کی تعمیر کرنے والوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ بلڈنگ کنٹرول کے اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جب تک ان ناگہانی اموات کا حکومتی سطح پر سختی سے نوٹس نہیں لیا جائے گا اور موثر اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا یہ افسوسناک اور المناک سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔