کیا پی سی بی میں ’’تبدیلی‘‘ آ رہی ہے؟

سلیم خالق  منگل 17 جولائی 2018
 ذاکر کی صرف ایک اہلیت اور وہ عمران خان کے انتہائی قریب ہونا ہے، فوٹو: فائل

ذاکر کی صرف ایک اہلیت اور وہ عمران خان کے انتہائی قریب ہونا ہے، فوٹو: فائل

’’سنا ہے ذاکر خان ان دنوں اپنے لیے نئے سوٹس کا آرڈر دے رہے ہیں، ملک میں ’’تبدیلی‘‘ آنے کے بعد ظاہر ہے کرکٹ بورڈ میں بھی ایسا ہوگا اور پھر تو ذاکر کے وارے نیارے ہونے ہی ہیں‘‘ ۔

جب میرے ایک دوست نے چہکتے ہوئے یہ کہا تو میں سوچنے لگا کہ شاید واقعی ایسا ہو جائے گا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ذاکرخان، عمران خان کے چہیتے ہیں، ساڑھے تین سالہ ٹیسٹ کیریئر میں انھوں نے دو ٹیسٹ کھیلے، دونوں میں کپتان خان صاحب ہی تھے، اس دوران پانچ وکٹیں ان کی فاسٹ بولنگ ’’صلاحیتوں‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ماشا اﷲ 17 ون ڈے انٹرنیشنل میں انھوں نے 16 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ اتنے میچ مجھے کھیلنے کو ملتے تو میں بھی ایک وکٹ فی ون ڈے تو حاصل کر ہی لیتا، ذاکر کی صرف ایک اہلیت اور وہ عمران خان کے انتہائی قریب ہونا ہے، سنا ہے کہ ریحام خان نے بھی اس سے جیلس ہو کر اپنی کتاب میں کچھ لکھا ہے، آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ کئی برس سے وہ پی سی بی میں غیر فعال ہیں،بس نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے جم جا کر ٹریننگ کرتے اور وہاں لنچ کر کے گھر واپس چلے جاتے ہیں، اس کے باوجود ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے، گاڑی و دیگر سہولتیں بھی انھیں حاصل ہیں، ذاکر کے معاملے میں نجم سیٹھی بھی بے بس رہے اور ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، عمران خان ویسے ہی ان سے ناراض رہتے ہیں، ان کے دوست کو چھیڑ کر انھیں مزید آگ بگولہ کرنا چیئرمین نے مناسب نہ سمجھا، اب خان صاحب کا حکومت بنانا تقریباً یقینی لگ رہا ہے۔

اس بار وہ سیاست کے جس ’’ ورلڈکپ‘‘ میں شریک ہیں اس میں مخالف ٹیمیں نظر ہی نہیں آ رہیں اور اقتدار کی ’’ٹرافی‘‘ انہی کے پاس آنی ہے،میں ذاتی طور پر بھی سمجھتا ہوں کہ وہ ملک میں بہتری لائیں گے لیکن چونکہ تعلق کرکٹ سے ہے اس لیے میرا پہلا پیمانہ بھی کرکٹ بورڈ ہی ہوگا، اگر ذاکر خان جیسے لوگ سامنے آئے تو توقعات کا محل دھڑام سے گر جائے گا، مگر یہ دور کی بات ہے ابھی دیکھنا ہے حالات کس طرف جاتے ہیں، البتہ ایک بات واضح ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں بھی چیئرمین بدل جاتا ہے کیونکہ یہ ادارہ ’’سونے کی چڑیا ‘‘ ہے، آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اس ’’چڑیا‘‘ کیلیے نجم سیٹھی نے اپنی ’’سیاسی چڑیا‘‘ کو آزاد کر دیا، آج جب ملک میں سیاسی ماحول گرم ہے تو وہ چینلز پر بات کرنے کے بجائے کرکٹ میں مصروف ہیں،2013میں گذشتہ عام انتخابات کے بعد جب حکومت تبدیل ہوئی تو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ذکا اشرف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا،حکمران جماعت ن لیگ کے قریبی اینکر نجم سیٹھی چیئرمین بنے، پھر قانونی جنگ چلی، اس دوران ذکا بحال بھی ہوئے مگر پھر معطل کر دیا گیا۔

اس محاذ آرائی کے سبب بطور ڈمی چیئرمین شہریار خان کو سامنے لانا پڑا، نجم سیٹھی طاقتورایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ بن گئے، چیئرمین کے کمرے پر ان کے نام کی مستقل تختی گذشتہ برس ہی لگی مگر اب بہت سے لوگ اسے تبدیل کرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے،ذکا اشرف کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کی ایک قریبی عزیز ن لیگ میں ہیں لہذا وہ چیئرمین بنے رہیں گے مگر ایسا نہ ہوا، ’’مالی بے ضابطگیوں‘‘ کے ایسے الزامات لگا کر انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا جو اب تک ثابت نہیں ہو سکے،اس سے پہلے بھی بورڈ کے سربراہان کو ہٹاتے ہوئے ایسی ہی باتیں ہوتی تھیں، سابق صدر پرویز مشرف کے قریبی دوست ڈاکٹر نسیم اشرف پر بھی بڑے الزامات لگے لیکن کچھ ثابت نہ ہو سکا اوروہ اب امارات کرکٹ لیگ کرا رہے ہیں، ایک سابق چیئرمین کے بارے میں یہ بھی باتیں سامنے آئیں کہ انھوں نے آئی سی سی کو خط لکھا کہ ’’حکومتی مداخلت کے سبب پاکستان کی رکنیت معطل کی جائے‘‘ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، ویسے بھی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا جیسی نہیں جس کے 211 ارکان ہوں۔

اس کے تو ابھی 12 فل ممبرز ہیں، ان میں سے بھی زمبابوے کا بُرا حال ہے،افغانستان اور آئرلینڈ تو ابھی قدموں پر کھڑے بھی نہیں ہوئے،سری لنکا میں بورڈ کے الیکشن کا انتظار ہے اور آئی سی سی نے وارننگ دی ہوئی ہے، وہ کسی کو معطل کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، پھر جس بھارتی بورڈ کے سہارے آئی سی سی قائم ہے، وہاں بھی کئی مسائل ہیں اور عدالتی کمیٹی بھی کرکٹ کے معاملات دیکھتی ہے، اس لیے کونسل ایسے معاملات میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، نجم سیٹھی کو پی سی بی میں آنے کے بعد بہت زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر آہستہ آہستہ ان میں کمی آتی رہی، اس کی وجہ پی ایس ایل کا انعقاد، ملک میں کرکٹ کی واپسی اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی بہتر پرفارمنس بنی۔

اب جب وہ کریز پر سیٹ ہوئے تو ایسا لگتا ہے کہ اننگز کے 50 اوورز مکمل ہونے والے ہیں اور حریف کو بیٹنگ کا موقع ملے گا، مخالفین یہ کہتے ہیں کہ للت مودی نے آئی پی ایل شروع کی اب وہ کرپشن کے الزامات پر بھارت سے بھاگے ہوئے ہیں مگر ایونٹ بدستور کامیابی سے جاری ہے، لہذا اگر نجم سیٹھی بھی پی سی بی میں نہ رہے تو پی ایس ایل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، مگر اس وقت نشریاتی حقوق ماضی کے مقابلے میں تین گنا زائد رقم پر فروخت ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں،غیرملکی ٹیموں سے ٹور کی بات چیت بھی جاری ہے، لہذا تبدیلی کا کچھ تو اثر پڑ سکتا ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے لیکن آپ بورڈ کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں یہاں چیئرمین کی تقرری سیاسی بنیادوں پر ہی ہوتی ہے۔

اب بھی شاید ایسا ہی ہو، البتہ عمران خان چونکہ خود کرکٹ سے وابستہ رہے ہیں لہذا ان سے بہتر فیصلے کی توقع ہے، ذاکر خان اور شکیل شیخ جیسے لوگوں کو سامنے لانا تباہ کن ہوگا۔ گوکہ ابھی یہ سب کچھ قبل از وقت لگتا ہے لیکن حالات سے یہی ظاہر ہونے لگاکہ ملک میں ’’تبدیلی‘‘ آ نہیں رہی بلکہ ’’تبدیلی‘‘ آ چکی ہے، نجم سیٹھی کے قریبی لوگ بھی یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ’’وہ آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، بورڈ کے نئے آئین کے تحت انھیں تین سال تک ذمہ داری ملی اور ابھی پہلا سال ہی جاری ہے،انھیں ہٹایا گیا تو عدالت سے رابطے کا آپشن موجود ہوگا جبکہ آئی سی سی بھی اسے برداشت نہیں کرے گی‘‘ ایسی ہی باتیں ذکا اشرف نے بھی کی تھیں، چیئرمین جو بھی بنے کرکٹ سے محبت کرنے والوں کی تو دلچسپی اسی میں ہے کہ ہماری ٹیم ترقی کرے اور امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔