پانی اور سپریم کورٹ کا مناسب فیصلہ

جمیل مرغز  بدھ 18 جولائی 2018

قومی وطن پارٹی کے رہنماء آفتاب احمد خان شیرپاؤ‘ کافی عرصے سے ‘پریس کانفرنسوں ‘قومی اسمبلی کے فلور اور جلسوں میں ‘ حکومت سے منڈا ڈیم کی جلد تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں‘دوسری طرف نریندر مودی کی ‘دریاؤں کا پانی بند کرنے کی دھمکی سے حکومتی ایوانوں میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔پاکستان میں پسماندگی ‘توانائی اور پانی کی کمی ‘مودی کی پانی بند کرنے کی دھمکیاں ‘ان سب کا سبب‘ ہماری غلط پالیسیاں ہیں۔

اگر معلومات حاصل کی جائیں تو حکومت پاکستان کی لاپروائی اور خراب گورننس کا ایک اور عقدہ کھلتا ہے۔پنجاب کے حکمرانوں سے تو گلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن پختون قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والے بھی پانچ سال تک اس مسئلے پر خاموش رہے‘آج اگر بھاشا  ڈیم کے بارے میں بھی حکومت سست روی دکھا رہی ہے تو منڈا ڈیم کا قصہ بھی کافی پرانا اور دردناک ہے۔دریائے سوات پر واقع یہ ڈیم‘ مہمند ایجنسی کی تحصیل پڑانگ غارمیں واقع ہے ‘یہاں پہلے ایک ہیڈ ورکس تھا‘ جہاں سے نہریںنکل کر چارسدہ ‘مردان اور شبقدر کا وسیع رقبہ سیراب کرتی تھیں۔

2010کے سیلاب نے اس ہیڈ ورکس کو توڑ دیا اور اس طرح اس علاقے کی اراضی بنجر ہوگئی ۔حکومت نے بعد میں یہاں پر ہیڈورکس کی مرمت تو کردی ‘لیکن اصل مسئلہ یہاں پر ایک ڈیم کی تعمیر کا ہے ‘12لاکھ ایکڑ فٹ اور 800میگاواٹ صلاحیت کے منڈا ڈیم کا معاملہ پچھلے کئی سال سے لٹکا ہوا ہے ‘اسی طرح مہمند ڈیم اگر بن جاتا تو دریائے سوات اور ملاکنڈ ایجنسی کے دیگر اضلاع کا پانی وہا ںذخیرہ ہوجاتا‘12لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ اور 800میگاواٹ بجلی بھی ملے گی‘ چارسدہ نوشہرہ اور مردان کی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب بھی ہوتی اور چارسدہ اور نوشہرہ سمیت پنجاب اور سندھ بھی سیلاب سے بچ جاتے ۔

پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کے بعد حال ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ‘مختلف حلقوں اور ماہرین سے مشورے کے بعد حکومت کو حکم دیا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری شروع کی جائے اور اس سلسلے میںچیف جسٹس کے حکم پر حکومت پاکستان نے ’’دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم 2018‘‘کے نام سے تمام شیڈول بینکوں میں فنڈ قائم کیا ہے ‘اس فنڈ کا مقصد ان دونوں ڈیموں کے لیے سرمائے کا حصول ہے ‘اس فنڈ میں چندہ اور فنڈ وغیرہ ملکی اور غیرملکی وسائل سے بھی وصول کیا جائے گا۔

اس فنڈ میں کیش‘ چیک‘پرائز بانڈ اور دوسرے ذرایع سے بھی فنڈ وصول کیا جائے گا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دس لاکھ روپے دے کر اس فنڈ کی ابتداء کی اور عوام سے بھی چندے کی اپیل کی ۔ چیئرمین واپڈا مزمل حسین کے مطابق 2018/19کے مالی سال کے دوران ان دونوں ڈیموں پر تعمیراتی کام شروع کردیا جائے گا‘ واپڈا کے اعلی افسر کے مطابق ‘ان ڈیموں کی مشترکہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 5500میگاواٹ اور اس میں پانی اسٹور کرنے کی گنجائش 9ملین ایکڑ فٹ ہے ۔

چیئرمین واپڈا کے اپنے ادارے کی رپورٹ میں مسئلے کا حل موجود ہے ‘اس رپورٹ کے مطابق تین اہم امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے ‘پاکستان کو اگلے 15سال میں سسٹم میں کم از کم 50,000 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہوگا‘اس مقدار میں کالاباغ کا 3,600 میگاواٹ کا اضافہ ایک معمولی اضافہ ہے ‘دوسرا یہ کہ اس وقت ملک میں 1000سے زیادہ ایسے ہائیڈل پراجیکٹ ہیں جہاں سے مسلسل‘سستی‘صاف اور بہتر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ واپڈا کی فزیببلٹی رپورٹ کے مطابق دیامیر بھاشا ڈیم کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔

٭۔اس ڈیم کا بنیادی مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا‘ آبپاشی اور بجلی کی پیداوار ہے٭۔4500میگاواٹ ماحول دوست اور صاف پانی سے بجلی پیدا ہوگی٭۔اس ڈیم میں اضافی 8,500,000ایکڑ فٹ(10.5km-3)پانی جمع ہوگا‘یہ پانی ملک میں پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا‘٭۔مٹی اور ریت کو روک کر نیچے کی طرف واقع تربیلہ ڈیم کی عمر میں 35سال کا اضافہ ہوگا‘تربیلہ اور منگلا تقریباً 30فی صد سے زیادہ ریت اور مٹی سے بھر چکے ہیںاور اندیشہ ہے کہ آیندہ پانچ سے دس سال میں ان ڈیموں کی گنجائش آدھی رہ جائے گی ٭۔سیلابی سیزن میں دریائے سندھ کے پانی سے ہونے والی تباہی کو روکے گا‘بھاشا ڈیم کا ذخیرہ آب کافی بڑا ہوگا اور وہ سیلاب کے سیزن میں اضافی پانی کو اوپر روک لے گا‘اگر بھاشا کا ذخیرہ ہوتا تو 2010کے سیلاب کی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔

جنوب میں گومل زام اور دریائے ٹوچی پر ڈیم بنانے سے ان دریاؤں کا پانی بھی دریائے سندھ میں جاکر سیلاب کا سبب بننے کے بجائے ان ڈیموں میں جمع ہوگا‘میرانی ڈیم‘ کٹ زرہ ڈیم ‘سبک زئی ڈیم‘سکردو اور ست پارہ ڈیم سمیت نہ جانے کتنے منصوبے واپڈا ہاؤس کے ریکارڈ روم میں دیمکوں کی خوراک بن رہے ہیں۔ چیئرمین واپڈا سے درخواست ہے کہ سیلابوں کو روکنے اور پانی و بجلی کی ضروریات  پوری کرنے کے لیے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے فوری کارروائی کریں ‘اگر ان منصوبوں پر ڈیم بنائے گئے تو پورا ملک بجلی میں خود کفیل اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔