میرا اور ہم سب کا بلوچستان !

علی احمد ڈھلوں  بدھ 18 جولائی 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

2013ء کے مقابلے میں نسبتاً پرسکون ماحول ہونے کی وجہ سے قوم کو یہی لگ رہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں ’’جوتے‘‘ بازی تو چل سکتی ہے مگر ہولناک دہشت گردی کے واقعات نہیں ہو سکتے۔ ہارون بلور اور سراج رئیسانی کی شہادت کے ساتھ 150سے زائد لوگوں کا ایک ہفتے میں دہشت گردوں کی نذر ہو جانا اس امر کا مظہر ہے کہ ہم صحیح طرح سے ابھی تک دہشتگردوں کی کمر توڑ نہیں پائے۔

کیوں کہ دہشت گرد جب چاہیں، جہاں سے چاہیں ہم پر حملہ کرتے ہیں ۔ اب جب الیکشن 2018ء سر پر ہے جب ووٹر کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت تھی تو اس وقت پے در پے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے دنیا بھر کی ہیڈلائن میں پاکستان پھر نمودار ہوگیایقینایہ الیکشن کو متنازعہ بنانے کے ساتھ ساتھ ٹرن اوور کم کرنے اور نتائج کو مشکوک بنانے کی سازش ہے اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کی نفی بھی۔

سانحہ مستونگ سے صرف سردار اسلم رئیسانی اور سردار شکری رئیسانی کا ذاتی ، خاندانی یا سیاسی نقصان نہیں ہوا بلکہ بہت بڑا قومی نقصان ہوا ہے۔ یہ نقصان دکھ کی صورت میں بھی ہے اور قومی ضمیر پر بوجھ کی صورت میں بھی۔ بلوچستان کچھ عرصے سے خصوصاً اگست 2006ء میں نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد مختلف سیاسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ 2013ء اور 2008ء کے عام انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ جو لوگ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں ، ان کے لیے بلوچستان میں بہت زیادہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔

سانحہ مستونگ کے بعد نہ صرف ان تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہو گا بلکہ یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ لوگ ووٹ ڈالنے آئیں گے یا نہیں ؟ 150 سے زیادہ لاشیں اور 250سے زیادہ شدید زخمیوں کی چیخیں بلوچستان کے سیاسی ماحول کو مزید تشویش ناک بنانے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔ سانحہ مستونگ سے پہلے بھی بلوچستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ، جن میں انتخابی امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مستونگ واقعہ سے ایک دن پہلے خضدار میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار صوبائی اسمبلی شکیل درانی کے الیکشن آفس کے باہر دھماکا ہوا۔ دس دن قبل پنجگور میں نیشنل پارٹی کے امیدوار رحمت صالح بلوچ کی انتخابی ریلی پر فائرنگ ہوئی۔

اسی طرح بلیدہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار ظہور بلیری اور جاہو میں نیشنل پارٹی کے امیدوار خیر جان کے گھروں پر راکٹ فائر کیے گئے۔ اسی طرح پشاور اور بنوں کے واقعات کے بھی بہت گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ میں بلور خاندان کا دوسرا بڑا نقصان ہوا ہے۔ 2013 ء میں پشاور میں ہی حاجی بشیر بلور دہشت گردوں کے واقعہ میں شہید ہوئے اور گزشتہ منگل کو 5 سال بعد پشاور کے علاقے یکہ توت میں بشیر بلور کے صاحبزادے بیرسٹر ہارون بلور سمیت 22 افراد شہید ہو گئے۔

بلور خاندان کی پاکستان میں جمہوریت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے لازوال قربانیاں ہیں۔ 2013 ء کے عام انتخابات میں بھی عوامی نیشنل پارٹی ان سیاسی جماعتوں میں شامل تھی ، جو دہشت گردی کے خوف سے اپنی عوامی رابطہ مہم نہیں چلا سکیں۔ اس مرتبہ بھی اس کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ بنوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اکرم درانی کے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں 5 افراد شہید ہو گئے۔ اکرم درانی بال بال بچ گئے۔ الیکشن سے قبل ان واقعات کا پے در پے ہونا سمجھ سے باہر ہے اور ویسے بھی مستونگ کے عظیم سانحہ کے بعد میرے خیال میں بلوچستان میں انتخابی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو جائیں گی۔

اس حوالے سے بلوچستان جانے کے ذاتی تجربے سے آگاہ کرتا چلوں کہ گزشتہ سال نومبر میں CPNE کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں کوئٹہ جانا ہوا تو واپسی پر میں نے ’’بلوچستان کو ناصر جنجوعہ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھا، مجھے وہاںجاکر محسوس ہواکہ بلوچستان میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں جانا آج بھی ممنوع ہے۔ وہاں بظاہر تو امن و امان تھا مگر لوگ جمہوری عمل میں دل سے حصہ نہیں لیتے کیوں کہ انھیں کچھ تحفظات ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے ناصر جنجوعہ نے بہت کام کیا تھا۔

آج بھی ہماری فوج  بلوچستان میں بہت کام کر رہی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ادارے جان چکے ہیں کہ بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں۔اور میں نے جوچیز محسوس کی وہ یہ تھی کہ جب ہمیں یہ ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تو بظاہر تسلی مل جاتی ہے کہ اب ملک میں استحکام آجائے گا۔ مگر اس کے برعکس خدا جانے، ان دہشت گردوں کی کتنی کمریں ہیں ،جو ہم بار بار توڑتے ہیں اور وہ نئے سرے سے اپنی مضبوط کمر کے ساتھ آ دھمکتے ہیں؟ اورمیرے ذاتی تجربے کے تحت بلوچستان جیسے صوبے میں تو اس جملے کی سچائی 20فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

مستونگ حملے کے بعد میڈیا پر سراج رئیسانی کی حب الوطنی کی تصویریں دیکھیں، تقریریں سنیں دل خوش ہوگیا کہ بلوچ قوم میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرنے کے لیے جو لوگ کام کررہے ہیں اُن کے جذبے کو سراہا جانا چاہیے۔ سراج رئیسانی کی تقریر سخت گرمی اور دھوپ کے باوجود سیکڑوں لوگ سننے آئے تھے اورکچھ لو گ نماز جمعہ ادا کرکے اس جلسے کے عقب میں جگہ تلاش کررہے تھے جہاں حاضرین کو دھوپ سے بچانے کے لیے شامیانے لگائے گئے تھے۔

اس چلچلاتی گرمی میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے سراج رئیسانی نے براہوی زبان میں صرف اتنا ہی کہا ’’بلوچستان کے بہادر لوگو‘‘ اور ایک زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد یہ جلسہ مقتل بن گیا، جہاں لاشوں اور زخمیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ زندگی کی آخری تقریر میں بلوچستان کے بہادر لوگوں سے مخاطب ہونے والا یہ شخص اب دنیا میں نہیں تھا، اس نے جولائی 2012میں دہشت گردوں کے حملے میں اپنے بیٹے میر حقمل رئیسانی کو کھویا تھا اور اس واقعے کے بعد خاموشی اختیار کرنے کے بجائے کھلے عام دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو للکارنا شروع کردیا تھا۔ میر سراج رئیسانی نے بلوچستان متحدہ محاذ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی تھی جس کے پلیٹ فارم سے گزشتہ سال انھوں نے یوم آزادی پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پرچم بلوچستان میں لہرایا اور شاید یہی وہ اعزاز تھا جو دشمنوں کے سینے میں کانٹا بن کر چبھا اور اس بہادر پاکستانی کی آواز خاموش کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔اگر میرے بلوچستان میں یہی عمل دہرایا جاتا رہا تو ہم کس سے اُمید کریں گے؟

افسوس ناک امر تو یہ تھا کہ جس دن سانحہ مستونگ ہوا اُس دن میڈیا ایک بڑی کوریج کے پیچھے لگا ہوا تھا۔

اور اب جب 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل پاکستان لہو لہو ہے۔ ہر طرف سے سازشوں کی بو آرہی ہے، کوئی ملکی مفاد میں نہیں سوچ رہا تو سیکیورٹی اداروں اور نگران حکومت کو کم از کم اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انتخابات کا انعقاد پر امن انداز میں ہو سکے۔ اور یہ ممکن ہو سکے کہ بلوچستان جہاں کا ووٹر ٹرن آؤٹ 30فیصد سے زیادہ نہیں رہتا وہاں کے ووٹرز کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ اور میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ بات کر رہا ہوں کہ وہاں شفاف قیادت کی اشد ضرورت ہے جو عوام میں گھل مل کر ان کے مسائل حل کر سکے گی ورنہ میرا اور ہم سب کا بلوچستان یوں ہی سسکتا رہے گا!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔