عمران خان…ہمدردی کا ووٹ ملے گا یا نہیں

نصرت جاوید  جمعرات 9 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

خدا کا لاکھ بار شکر۔ عمران خان تقریباََساڑھے 13فٹ کی بلندی سے کمر کے بل گرنے کے باوجود خیرخیریت سے ہیں۔ انھیں زخم آئے ہیں جنھیں بھرنے میں دیر لگے گی۔کمر کی تھوڑی بہت تکلیف انھیں پہلے سے تھی۔ اب یقیناً ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں پر کافی دباؤ پڑا ہوگا۔ عمران مگر ضدی اور بہادر آدمی ہیں۔ تاریخ کے تیز ترین باؤلروں میں سے ایک ہوتے انھیں برسوں سے چوٹیں برداشت کرنے اور علاج کرانے کے بعد میدان میں اُتر کر مخالفین کا تیاپانچہ کردینے کی عادت ہے۔ اس بار بھی ربّ خیر کرے گا۔

یہ سب کہنے کے بعد میں یہ بھی لکھنے پر مجبور ہوں کہ ان کے مداحین نے لفٹر سے گرنے کے بعد ICUکے بستر سے قوم کے نام عمران خان کے پیغام کو بڑی بے رحمی اور تقریباََ احمقانہ طریقے سے ان کی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ حقیقت قطعی طورپر بھول چکے ہیں کہ ان کے ہیرو خدانخواستہ ان کے کسی سیاسی دشمن کی سازش یا تخریب کاری کا نشانہ نہیں بنے تھے۔ جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا اور اس کی پوری ذمے داری ان افراد پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ایک انتہائی پست معیار کے لفٹر کے ذریعے عمران خان کو لاہور کی غالب مارکیٹ میں بنائے گئے اسٹیج تک پہنچانے کی کوشش کی۔

مجھے ایک سے زیادہ رپورٹروں نے جو اس جلسے میں موجود تھے الگ الگ بتایا ہے کہ اس لفٹر کے ذریعے اسٹیج تک پہنچتے ہوئے ان کا اپنا دل بھی بہت گھبراگیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ لفٹر کی یہ خامی اس جلسے کے منتظمین کیوں نہ دریافت کرپائے۔ اب تو یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ایک ناقص لفٹرپر اتنے سارے گارڈز کا عمران خان کو ’’جھپا‘‘ ڈال کر کھڑے ہونا اپنی جگہ اس حادثے اور اس کی شدت کا باعث بنا۔ اس سے زیادہ بڑی غلطی عمران خان کو زخمی حالت میں کسی سرکاری ایمبولینس کے بجائے ان کے دوستوں اور کارکنوں کا اپنے طورپر اسپتال پہنچانا تھا۔کوئی بھی تخریب کار پورے جوش سے ہمدردی بھری پُھرتی دکھاتے اس گروہ میں گھس کر عمران خان کو کوئی ایسا نقصان پہنچا سکتا تھا جس کی ہمیں بڑی خوفناک قیمت ادا کرنا پڑتی۔

گزشتہ ہفتے پشاور کے ایک محلے میں چار سے زیادہ گھنٹے تک عمران خان کا اس کے سیکڑوں مداحوں کے ایک ہجوم کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے میں نے خود دریافت کرلیا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی ایک ایسا شخص نہیں ہے جو ان کے لیڈر کی نقل وحرکت اور دوسری سرگرمیوں کا سیکیورٹی اور دوسرے حوالوں سے پوری طورپر ذمے دار ہو۔اس حوالے سے ہر چیز بڑی ہیجانی انداز میں آپا دھاپی میں انجام دی جاتی ہے۔

کسی سخت گیر منتظم اور ایک واضح SOPکے بغیر اپنی ایک جھلک کے ذریعے لوگوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کو کہیں بھی اکٹھا کرلینے کی طاقت رکھنے والی کرشماتی شخصیات کی نقل وحرکت کے معاملات ہرگز اس طرح نہیں سنبھالے جاتے جیسے تحریک انصاف کے لوگ پشاور جیسے شہر میں کرتے نظر آئے تھے۔ خاص طورپر اس روز جس کی صبح تحریک انصاف کے ایک دفتر کے باہر ایک بم دھماکا بھی ہوا تھا۔

عمران خان کے ’’جنونی‘‘ مداحین سے میرا یہ شکوہ بھی ہے کہ وہ اس بات کو سراہنا تو دور کی بات ہے سمجھ بھی نہ پائے کہ عمران خان کے بدترین سیاسی دشمنوں نے بھی ان کے حادثے کی خبر سن کر پرخلوص ہمدردی اور پریشانی کا اظہار کیا۔ آصف علی زرداری کے لوگ لمحہ لمحہ ان کی خیریت کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔ الطاف حسین نے اپنا ایک جلسے سے جاری خطاب ختم کردیا۔

نواز شریف کا راولپنڈی کے جلسے میں آنا مجبوری تھی مگرانھوں نے لاہور، جہاں ان کی جماعت اور تحریک انصاف نے 11مئی کے دن انتخابی جنگ کو تخت یا تختہ کرنے کے انداز میں لڑنا ہے ،پورے ایک دن کے لیے اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں معطل کردیں۔ عمران خان کے حادثے کے بعد ان کے بدترین سیاسی مخالفین کا رویہ بڑے ٹھوس انداز میں یہ خوش گوار پیغام دیتا ہے کہ پاکستان کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کی طرح اب سیاسی جنگ کو ذاتی نفرتوں کی بنیاد نہیں بناتا۔ میں بڑے خلوص سے یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان اور ان کے مداحین کو اس روایت کا بڑے کھلے دل کے ساتھ خیرمقدم کرنا چاہیے تھا۔

ایسا مگر بدقسمتی سے ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ ٹویٹر اور فیس بک پر تو بحث اب یہ چھڑ گئی ہے کہ ICUکے بستر سے قوم کے نام اپنا درد بھرا پیغام دے کر عمران خان نے 11مئی کی بازی جیت لی ہے یا نہیں۔ تحریک انصاف والوں کو تو اب یقین ہوچکا ہے کہ حادثے کے بعد عمران خان کے لیے ہمدردی اور ستائش کا ایک سمندر اُبل پڑا ہے جس کا اظہار لوگ والہانہ انداز میں 11مئی کے دن تحریک انصاف کے انتخابی نشان پر مہر لگانے کے ذریعے کریں گے۔

اپنی جان کی امان پاتے ہوئے مجھے یہ عرض کرنے دیجیے کہ شاید ایسا نہیں ہوگا۔ اقتدار کا کھیل بڑا سفاک ہوتا ہے۔ لوگ اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے بڑے خود غرض بن جایا کرتے ہیں۔ اگر آپ میری بات کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں تو بس 2008ء کا انتخاب یاد کرلیجئے۔ اس کے انعقاد سے چند ہی ہفتے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کو دن دہاڑے راولپنڈی کے ایک بازار میں دہشت گردی کے ذریعے قتل کردیا گیا تھا۔ 27دسمبر2007ء کے اس سانحے سے پہلے ان کے 18اکتوبر والے جلوس پر بھی ایک وحشیانہ حملہ ہوا تھا۔ محترمہ کے اندوہناک قتل کی فلمیں پورے ایک ماہ تک ہماری ٹی وی اسکرینوں پر چلتی رہیں۔ مگر جب پرچیاں ڈالی گئیں تو لوگوں نے ان ہی جماعتوں کو ووٹ دیے جنھیں وہ پہلے ہی اپنے دل میں چن بیٹھے تھے۔

پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 272میں سے صرف 84نشستیں ملیں۔ وہ واحد اکثریتی جماعت تو ضرور بنی لیکن 137 والا وہ عدد حاصل نہ کرپائی جو اسے کسی اور کو اقتدار میں شریک کیے بغیر حکومت بنانے کی طاقت فراہم کرتا۔ حکومت بنانے اور بعدازاں اسے پانچ سال تک برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کو اسی کی بدولت سو طرح کے سمجھوتے کرنا پڑے جن کی سزا وہ اس انتخابی مہم کے دوران بھگت رہی ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کی کہانی دہرائی جاسکتی ہے۔ عمران خان کے مداحین کو اس کے لیے ذہنی طورپر تیار رہنا چاہیے۔ سیاست ممکنات کا کھیل تو ہے مگر اس کے کچھ پہلو بہت ہی ظالمانہ حد تک جامد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انھیں جذبات پگھلانے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔