پرویز خٹک کا بیان اور سیاسی اخلاقیات کا جنازہ

محمد علی خان  جمعرات 19 جولائی 2018
عمران خان کی بھرپور ذمّہ داری بنتی ہے کہ اپنے رہنماؤں کی اخلاقی تربیت کا انتظام کریں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

عمران خان کی بھرپور ذمّہ داری بنتی ہے کہ اپنے رہنماؤں کی اخلاقی تربیت کا انتظام کریں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سیاسی میدان میں مخالفین پر تنقید کرنا، ان کے لتے لینا عام سی بات ہے اور دو طرفہ طور پر یہ معاملات چلتے رہتے ہیں۔ مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی بھی چیز حدود پار کرلیتی ہے؛ جب آپ اعتدال کا، اخلاق کا دامن چھوڑدیتے ہیں تو پھر خود بھی تہی دامنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

تاجدارِ کائنات ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم میں سے کسی کے پاس حیا نہ رہے تو پھر وہ جو چاہے کرتا پھرے۔

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ایک بیان گردش کر رہا ہے جس میں وہ پیپلزپارٹی کا جھنڈا لگانے والے کارکنان کے لیے ایسی نازیبا گفتگو کر رہے ہیں جس کو بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔

واضح رہے یہ وہی پیپلزپارٹی ہے جس سے پرویز خٹک صاحب خود بھی وابستہ رہے ہیں، ممبر رہے ہیں۔

حسب معمول عمران خان کا نہ ہی کوئی مذمتی بیان سامنے آیا نہ ہی کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اپنی جماعت کے سینئر رہنماؤں کی طرف سے نامناسب بیانات یا ردعمل پر خان صاحب عموماً خاموشی اختیار کر لیتے ہیں؛ شاید وہ ہیوی ویٹ لیڈرز سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

ماضی قریب میں نعیم الحق نے دانیال عزیز کو لائیو پروگرام میں تھپڑ دے مارا تھا۔ دیگر رہنماؤں کے بھی مخالفین کے حوالے سے متنازع بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

وہ الگ بات ہے جب سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر نعیم الحق کا عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈاپور سے ٹاکرا ہوگیا تھا تو نعیم الحق بالکل خاموش نظر آئے تھے۔

کمزور کو دبالو، طاقتور کے آگے جھک جاؤ؛ واقعی بہترین فارمولا ہے۔

عمران خان کی بھرپور ذمّہ داری بنتی ہے کہ اپنے رہنماؤں کی اخلاقی تربیت کا انتظام کریں۔ اگر آپ عوام کی اکثریت ساتھ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو عوام کے اعتماد پر اترنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے، آپ کی جماعت میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے، ان کا ہی خیال کر لیا جائے۔ جب پرویز خٹک جیسے رہنما اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو نجانے کس “سُر” میں ہوتے ہیں، کیونکہ ہوش و حواس می کوئی معقول شخص اس طرح کے بیانات کس طرح دے سکتا ہے! شاید انہیں یاد آجائے کہ جس پیپلزپارٹی کو وہ گالیاں دے رہے ہیں کبھی خود بھی اس کے جھنڈے تلے گھومتے تھے۔

قابلَ ذکر بات یہ ہے کہ عمران خان جو کہ اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے اسی طرح نامعقول تنقید کی زد میں رہے ہیں، تازہ ترین کتاب ’’ریحام خان‘‘ بھی اسی طرح کے واقعات پر مشتمل ہے۔

سیاست میں تنقید بھی ہوتی ہے اور مخالفت بھی، مگر جب ان باتوں کو اخلاقی کردارکشی کےلیے غلیظ زبان استعمال کی جائے تو اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ نا معقول لوگ آپ کی واہ واہ کریں، مگر حقیقتاً آپ اسی وقت با اخلاق لوگوں کی صف سے باہر ہوجاتے ہیں اور جیتنے کے باوجود بھی شکست خوردہ نظر آتے ہیں۔

لیڈرز مثال بنتے ہیں، لوگوں کے آئڈیل بنتے ہیں، مگر اس کےلیے لوگوں کے بدل میں اترنا پڑتا ہے۔ لیڈر کا چہرہ اس کی زبان ہوتی ہے، خوبصورت جملوں کا انتخاب اسے ہر دل عزیز بنا دیتا ہے۔

بصورتِ دیگر کسی کو دل سے اتارنا دل میں بسانے سے بہت زیادہ آسان ہے؛ انتخاب آپ کا اپنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد علی خان

محمد علی خان

مصنف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور بلاگر ہیں۔ سیاست کا شوق اور ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔