ایران پر امریکی پابندیاں اور عالمی ادارہ انصاف

ایڈیٹوریل  جمعرات 19 جولائی 2018
امریکا اسلامی دنیا میں اپنی دانست میں جو کامیابیاں حاصل کررہا دراصل وہی اس کی ناکامی کے اسباب ہیں
فوٹو:فائل

امریکا اسلامی دنیا میں اپنی دانست میں جو کامیابیاں حاصل کررہا دراصل وہی اس کی ناکامی کے اسباب ہیں فوٹو:فائل

ایران کے ساتھ امریکا کے جوہری معاہدہ کا آغاز اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی دور میں اچانک ہی اس معاہدے سے انخراف کے بعد نہ صرف امریکا کی ایران کے ساتھ مخاصمت بڑھتی جارہی ہے بلکہ ایران پر بے جا اور ناروا پابندیوں کا تذکرہ بھی سامنے آرہا ہے۔ ایران نے واشنگٹن کی طرف سے عالمی جوہری ڈیل سے دستبرداری پر امریکا کے خلاف شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین اور عالمی سفارتکاری کے خلاف ہیں۔

اس سلسلے میں ایران نے امریکا کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں اب ایک باقاعدہ شکایت بھی درج کرا دی ہے۔ بلاشبہ ایران امریکا کی طرف سے سفارتکاری اور قانونی ذمے داریوں کی ہتک کے باوجود قانون کی بالادستی کے لیے پرعزم ہے، لیکن اس کے باوجود عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی امریکی عادت کے خلاف مزاحمت کے لیے عالمی ادارہ انصاف کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوا ہے، اس تناظر میں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا عالمی ادارہ انصاف ’’عالمی سپر پاور‘‘ کے خلاف کس حد تک جاسکتا ہے، جب کہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ امریکا کی جانب سے بارہا انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف وزریوں کے خلاف بھی عالمی ادارہ کوئی صائب کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔

واضح رہے کہ مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015 میں طے پانی والی ایک تاریخی ڈیل سے الگ ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں امریکا کی طرف سے ایران پر عائد پابندیوں کو بحال کیا جارہا ہے، تاہم ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس ڈیل کی دستبرداری متعدد عالمی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ 1955 میں ایران اور امریکا کے مابین بہتر تعلقات کی خاطر طے پانے والی ایک ڈیل کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد تہران اور امریکی سفارتخانے پر دھاوا بولے جانے کے بعد 1980 میں ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے، جو ابھی تک بحال نہیں ہوسکے ۔ عالمی جوہری ڈیل سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت ایران پر پابندیاں بحال کررہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ پابندیاں دو مراحل میں عائد کی جائیں گی، پہلا مرحلہ اگست میں جب کہ دوسرا مرحلہ نومبر میں شروع ہوگا۔ ان پابندیوں میں ایسی یورپی کمپنیوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، جو ایران میں بزنس کررہی ہیں اور ساتھ ہی ایران کی عالمی منڈی میں تیل کی فروخت کو بھی رکوانے کی کوشش کی جائے گی۔ عالمی جوہری ڈیل میں شامل دیگر فریقین کی کوشش ہے کہ اس تاریخی معاہدے کو بچایا جائے۔

خدشہ ہے کہ اس ڈیل کی ناکامی کے باعث ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش دوبارہ شروع کرسکتا ہے، جو علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہوگا۔ ایران کے خلاف امریکی دھمکیوں کے تناظر میں بڑی مغربی کمپنیاں ایران سے اپنا کاروبار سمیٹ رہی ہیں اور ایسے میں روس نے ایران کی تیل و گیس کی صنعت میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق ماسکو اور تہران دو طرفہ اقتصادی تعاون بڑھا رہے ہیں اور روس، ایران میں توانائی کے شعبے میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شدت پسندی اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے سے خطے میں مزید تنازعات پیدا ہوں گے۔اپنی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جن عزائم کا اظہار کیا تھا، اب وہ ان پر عمل پیرا ہیں۔

پالیسی ان کی بھی وہی ہے جو ان کے پیشروؤں کی رہی کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم اس کے معدنی وسائل کو تصرف میں لانا ہے خواہ اس کے لیے معاہدے کیے جائیں یا جارحیت۔ ایران پر جوہری ہتھیاروں کی افزودگی بالکل ویسا ہی الزام ہے جیسا امریکا کی جانب سے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق لگایا گیا تھا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ الزامات سراسر بے بنیاد تھے۔ بہت سے فاتح زندگی بھر اپنی فتوحات کا سوگ مناتے رہتے ہیں کہ ان کے مسائل ان کی ناکامی کے بجائے کامیابی سے شروع ہوتے ہیں۔

امریکا اسلامی دنیا میں اپنی دانست میں جو کامیابیاں حاصل کررہا دراصل وہی اس کی ناکامی کے اسباب ہیں۔ امریکا محض اپنے مفادات سے مخلص ہے، کسی اور سے نہیں۔ عالمی ادارہ انصاف کا قیام ریاستوں کے مابین تنازعات کے پرامن حل کے لیے روبہ عمل لایا گیا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس ادارہ کے بیشتر فیصلے جانبداری اور طاقتور کی جانب جھکے ہوئے ہیں۔ ایران کا امریکی ناروا سلوک پر قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے عالمی ادارہ انصاف سے رجوع کرنے کا فیصلہ صائب اور بروقت ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ عالمی ادارہ انصاف کیا واقعی ’’انصاف‘‘ فراہم کرپائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔