نئی حکومت بہتر ہو گی

عبدالقادر حسن  جمعرات 19 جولائی 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اس مایوس کن صورتحال میں اب تو اس بات کا انتظار ہے کہ الیکشن کا دن جلد آجائے اور بے سود اور بے کار نگرانوں سے گلو خلاصی ہو جائے کیونکہ انھوں نے اپنی چند دن کی حکومت میں عوام کو جتنا تنگ کر لیا ہے وہی بہت اور مزید کی تنگی کی سکت نہیں۔ ان نگرانوں کا انتخاب گزشتہ حکمرانوں نے سیاسی حریفوں کے ساتھ مل جل کر کیا تھا لیکن یہ نگران بھی حکمران نکلے اور ہمارے نگران وزیر اعظم تو آغاز میں پروٹوکول کے ساتھ اپنے آبائی علاقے جا پہنچے تا کہ اپنے آبائی علاقے کو لوگوں کو بتا سکیں کہ ان میں سے ہی ایک حکمران بھی بن گیا ہے اور حکمرانوں کے ٹھاٹ باٹ سے وہ بھی آگاہ ہو جائیں۔نگران حکمرانوں کے انتخاب کے وقت بتایا یہ گیا تھا کہ یہ انتہائی شریف النفس اور قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں اس لیے ان کے ذمے انتخابات کرانے ہیں اور اس لیے حکمرانی کی ذمے داری سونپی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دیانت دار لوگ ہیں لیکن انھوں نے اپنے عمل سے عوام کے لیے جو مشکلات پیدا کی ہیں وہ کسی دیانت دار حکمران کی شان نہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمرانی کی اس مختصر مدت میں عوام کو سکون کے چند ماہ مل جاتے لیکن ان دیانت دار حکمرانوں نے عوام پر دنیا مزید تنگ کر دی ۔

نگران حکومت میں احتساب کا عمل بھی جاری ہے لیکن دوسروں کا احتساب کرنے کے لیے صرف دیانت دار ہونا کافی نہیں ہے کسی بد دیانت کی سرکوبی اور اس کی گردن مانپنے کی جرات بھی ہونی چاہیے ۔ نیک لوگ تو اس ملک میں بہت پھرتے ہیں جن کی دیانت و امانت پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا لیکن وہ کسی بد دیانت کو روکنے کی جرات نہیں رکھتے اس لیے ان کی دیانت ان کی ذات کی حد تک ہے جو ایک قابل رشک صفت سہی لیکن عوام کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ جو وصف دوسروں کے لیے نفع بخش نہ ہو اسے بے کار ہی سمجھنا چاہیے ۔

ہمارے مذہب میں خیر اسے کہا گیا ہے جو دوسروں کے لیے نفع رساں ہو اس لیے ہمارے نگرانوں میں چند ایک محض نیک نام لوگوں کا وجود کوئی بڑی بات نہیں ہے اور ایسے وجود کا بے کار ہونا قوم کے سامنے ہے۔ اس لیے نگران کچھ نہ کر سکے۔ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے شوروغل نے اتنا ضرور کر دیا ہے کہ بد عنوان اور بد قماش لوگوں کو کچھ ڈر پیدا ہو گیا ہے اور وہ دل میں کہتے ہوں گے کہ اب محتاط ہو جانا چاہیے، نہیں تو آنے والی حکومت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

الیکشن کے نتیجے میں جو نئی حکومت بنے گی وہ احتساب کے مطالبے کے شور میں بنے گی ۔ اس شور نے جہاں سیاستدانوں کو کچھ ڈرایا ہے وہاں سرکاری ملازمین کو بھی ڈرا دیا ہے اور وہ بھی اب اوپر کے حکم پر کوئی غیر قانونی کام کرنے سے گریز کرنے کی کوشش ضرورکریں گے ۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ اوپر کے زبانی احکامات پر عمل درآمد کرا کے ان کے ساتھی افسر گرفتار ہو کرجیلوں میں بند ہو چکے ہیں اور اپنے کیے کا جواب اورحساب دے رہے ہیں یہ وہ حساب ہے جو اوپر کے احکامات کے نتیجے میں دیا جا رہا ہے لیکن ان احکامات کی آڑ میں افسر شاہی نے بھی خوب مزے لوٹے ہیں اور اس کی داستانیں ہم پڑھ اور سن رہے ہیں ۔

میڈیا کا منہ بھی کھل گیا ہے اور کرپشن کے خلاف جو فضا بن گئی ہے اس میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہے جس نے عوام کی ترجمانی دل کھول کر کی ہے اور اپنے بہت سارے گناہ بخشوا لیے ہیں اس لیے آیندہ جب کرپشن ہو گی اور ضرور ہوگی تو میڈیا اسے ننگا کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ اور یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ کرپشن بہت مشکل ہو جائے گی کم ازکم سابقہ حکمرانوں کا اسٹائل کرپشن اب ممکن نہ ہو سکے۔ کرپشن کے خلاف رائے عامہ بھی بڑی جاندار ہو چکی ہے، ہمارے متوقع وزیر اعظم کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ضرور موجود ہے جس کا دامن صاف نہیں اس لیے اس طرح کے لوگوں کو بھی اب کان ہو گئے ہوں گے اور ان کو بھی میڈیا کا خوف ضرور رہے گا اور وہ اپنے کرتوتوں سے باز رہیں گے۔

جاندار احتساب کا عمل جاری ہے ایک سابق وزیر اعظم جیل میں ہیں جب کہ دوسروں کے خلاف بھی تحقیقات ہو رہی ہے، عمران خان سب کو جیل بجھوانے پر مصر ہیں وہ ایک کے بعد دوسرے کی باری کے منتظر ہیں ۔ ان کا اپنا دامن صاف ہے اس لیے وہ ببانگ دہل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ زرداری سمیت کسی بھی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکمرانی اور ان کے درمیان کچھ دنوں کی بات رہ گئی ہے اس لیے وہ عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ کسی کرپٹ کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیںہو گی۔ یہ عوام کے دل کی آواز ہے انھوں نے صحیح موقع پر عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے اور عوام کی طرف سے ان کو مثبت جواب بھی مل رہا ہے۔ ان وجوہات اور توقعات کے پیش نظر یہ امید کی جارہی ہے کہ گزشتہ حکومتوں سے بہتر حکومت شاید الیکشن کے بعد آجائے اور اس آنے والی نئی منتخب حکومت کے بہتر ہونے یا بہتر رہنے کی سب سے بڑی ضمانت عمران خان ہی دے سکتے ہیں۔ ان کا دامن فی الحال کسی بھی قسم کی کرپشن سے پاک ہے اور یہ دامن پاک رہنے کی امید بھی ہے شاید یہی وہ آخری امید ہے جس پر پاکستانی عوام اعتبار کرتے ہیں اور عمران کو کامیاب کرانے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔