کیاخونِ ناحق سے چھٹکارا ممکن ہے؟

مقتدا منصور  جمعرات 19 جولائی 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گیا ہفتہ ایک بار پھر خون انسان سے رنگیں رہا ۔ پے درپے تین واقعات۔ پہلا پشاور میں، جس نے بلور خاندان کے سپوت اور شہید بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور کے ساتھ درجنوں معصوم جانوں کو نگل لیا۔ دوسرا واقعہ مستونگ (بلوچستان) میں ہوا۔ جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ معصوم شہریوں سمیت وہاں سے صوبائی اسمبلی کی نشست PB-35کے امیدوار میر سراج رئیسانی اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے، تقریباً اس سے زیادہ تعداد میں لوگ شدید زخمی ہیں۔

اسی روز صبح کے وقت بنوں میں ہونیوالے ایک بم دھماکے میں قومی اسمبلی کے امیدوار اکرم درانی گوکہ محفوظ رہے، مگر نصف درجن کے قریب لوگ اپنی جانوں سے گئے۔اس دوران (اتوار کی شب) ہارون بلور کے تایا غلام احمد بلور کا یہ چونکا دینے والا بیان سامنے آیا کہ ان کے بھتیجے کے قتل کا دعویٰ گوکہ طالبان نے کیا ہے، لیکن اصل میں اس قتل کے پس پشت ہمارے اپنے ہیں۔ اس بیان نے اس سوچ کو تقویت دی ہے کہ بعض حلقے انتخابات کے التوا کے خواہش مند ہیں۔

جمعہ13جولائی ہی کو میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز واپس لاہور پہنچے۔ جنھیں پہنچتے ہی گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہلے اسلام آباد اور پھر عدالتی کارروائیوں کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ جس کے پس پشت عدل سے زیادہ Deep State کے مفادات اور خواہشات کا دخل ہے ۔ یہ موضوع ایک مکمل اظہاریے کا متقاضی ہے۔اس لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا تبصرہ مختصراً پیش کرکے اپنی گفتگو کو شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی حالیہ لہر پر پر مرکوز کرنا چاہئیں گے۔

چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما  Offshore کمپنیوں کی بنیاد پر چلنے والا مقدمہ پہلے دن سے کمزور رہا ہے۔ Prosecution روزاول ہی سے ٹھوس شواہد اور شہادتیں حاصل کرنے میں ناکام  رہا ہے۔ اسی طرح ایون فیلڈ جائیداد کے حالیہ مقدمے میں بھی ان کے بقول عجلت میں کمزور فیصلہ دیا گیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ خود فیصلے میں لکھا ہے کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی، تو پھر سزا کس بات کی؟ جو قانونی شقیں اس سلسلے میں استعمال کی گئی ہیں، وہ بھی الزام کی وضاحت میں ناکام ہیں۔ لہٰذا اس مقدمے کے فیصلے کا فائدہ میاں صاحب ہی کو پہنچے گا۔

اب دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھاتے مظہر کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کوئی نیا مظہر نہیں ہے ۔ یہ تاریخ ، عمرانیات اور سیاسیات کے اصولوں کی باریک بینی سے عدم واقف منصوبہ سازوں، سیاستدانوںاور منتظمہ کی کوتاہ بینی پر مبنی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ برٹش انڈیا سے آزادی کے لیے مذہبی بالادستی اور تہذیبی نرگسیت کے جو نعرے(Slogans) لگائے گئے تھے، قیام پاکستان کے بعد انھیں متروک کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے بجائے مقتدر اشرافیہ نے اقتدار و اختیار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خواہش میں ان نعروں کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنا کر جمہوری عمل کو محدود کرنے کی کوشش کی ۔ ان پالیسیوں کا براہ راست فائدہ ملک کی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مغرب کی سرمایہ دار دنیا کو بھی پہنچا، جوسوویت یونین کوگرم پانیوں اور مشر ق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر سے دور رکھنے کے خواہش مند تھی۔

دنیا کی معلوم تاریخ میں قوموں نے اپنی قومی آزادیوں کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، خود کو مجتمع رکھنے کی خاطر مختلف نوعیت کے نعرے وضع کیے، مگر جیسے ہی آزادی میسر آئی ، انھوں نے ان نعروں کو خیر آباد کہتے ہوئے عوام کی فلاح کی پالیسیاں ترتیب دیں ۔ جدید دنیا میں اس نوعیت کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ایک آئرلینڈ کی ہے، جس میں آئرش ری پبلکن آرمی (IRA) نے مسیحی مذہب کے ایک فرقہ رومن کیتھلک کو برطانیہ کے مجموعی عقیدے پروٹسٹنٹ کے خلاف بطور آلہ کار استعمال کیا۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، تواپنے نعروں پر اصرار کرنے کے بجائے جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مستحکم کیا اور تمام قومیتوں اور عقائد کے حامل شہریوں کو مساوی شہری حقوق دیے۔

دوسری مثال جنوبی افریقہ ہے، جو بدترین نسلی امتیاز (Apartheid)کا شکار تھا۔ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کا محور سیاہ فام اصل مقامی (indigenous)  آبادی کے حقوق کی بحالی اور قومی آزادی تھا۔جس کی خاطر انھوں نے 27 برس سلاخوں کے پیچھے گذارے، مگر جب انھیں آزادی حاصل ہوئی، تو انھوں نے Truth & Reconcilliation Commissionقائم کرکے امتیازی سلوک اور زیادتیوں کے بارے میں حقائق جاننے کی تو ضرور کوشش کی، لیکن سفید فام اقلیت کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی سے گریز کرتے ہوئے ملک کی مجموعی ترقی کی خاطرعام معافی دیتے ہوئے آگے بڑھنے کو ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے جنوبی افریقہ نسل پرستانہ انتقام کے خونریز بحران اور تباہی سے بچ گیا۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں کوتاہ بین اور تہذیبی نرگسیت کے جال میں پھنسے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اہل دانش نے روز اول ہی سے عقل و دانش اور دور اندیشی سے عاری حکمت عملیوں کو پالیسی سازی کا حصہ بنا دیا ۔ قرارداد مقاصد کے بعد پے درپے تسلسل کے ساتھ ایسے اقدامات کیے گئے، جن کے نتیجے میں  پاکستان عملاً ایک تنگ نظر تھیوکریٹک ریاست میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف کشمیر کے قضیے اور بھارت سے خود ساختہ خوف نے پاکستان کو فلاحی مملکت کے بجائے سیکیورٹی ریاست میں تبدیل کردیا۔ جس کے نتیجے میں جمہوری سیاست پس پشت رہ گئی اور Deep State پالیسی سازی سمیت تمام ریاستی فیصلوں پر حاوی آگئی ۔ یوں شہری حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈوں کا استعمال عام ہوگیا ۔اس بیانیے نے نہ صرف پورے خطے کو بارود کا ڈھیر بنادیا ہے، بلکہ پاکستان کا اپنا وجود بھی مختلف نوعیت کے خطرات کی گرداب میں پھنس گیا ۔نتیجتاً ریاست گریز رجحانات بھی پروان چڑھنے لگے۔

اگر ریاست کی مقتدرہ ماضی کے تلخ تجربات کا حقیقت پسندانہ انداز میںتجزیہ کرتے ہوئے، اپنے سابقہ بیانیے پر نظر ثانی پر آمادہ ہوجائے، تو آج بھی ملک کو درست سمت میں لے جانا مشکل نہیں ہے، لیکن اس مقصد کے لیے اسٹبلشمنٹ کو اپنے ماورائے آئین اختیارات سے دستبردار ہونا پڑے گا ۔ ان جنونی مذہبی اور متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کی بغیرکسی رو رعایت اور مصلحت پسندی بیخ کنی کے لیے آمادہ ہونا پڑے گا۔ اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ ریاست کا کوئی ادارہ مذہبی شدت پسند عناصر کی پشت پناہی میں ملوث ہے ۔ الیکشن کمیشن کوکالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ان تمام عناصرکو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنا ہوگا ، جو مختلف تنظیمی ناموں یا آزاد امیدوارکے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ نگران حکومت کو بھی ان تنظیموں کے خلاف مناسب اور بلاامتیازکارروائی کرنا ہوگی، جن کے بارے میں عالمی برادری بھی مسلسل تحفظات کا اظہارکرتی چلی آرہی ہے۔

لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ سرد جنگ کی نفسیات پر مبنی ریاستی بیانیہ سے جان چھڑاکر ایک نئے وفاقی پارلیمانی جمہوری بیانیے کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی جائے، کیونکہ اس کے بغیر مذہبی شدت پسندی اور اس کے نام پر ہونے والی خون ریزی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔