الیکشن 2018 ضرور ہوں گے

سعید پرویز  جمعرات 19 جولائی 2018

یاد ہے نا ایران کی پارلیمنٹ پر حملہ ، حملہ اتنا شدید تھا کہ پوری عمارت تقریباً ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی اور 200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا تھا کہ جب ملک میں انتخابات میں صرف چند روز رہ گئے تھے اور یہ بھی یاد ہے نا کہ ایران نے انتخابات مقررہ تاریخ پر ہی کرائے تھے، اتنے بڑے سانحے پر ایرانی گھبرائے نہیں تھے۔

ہمیں بھی اس سازش کو سمجھنا ہے اور انتخابات مقررہ تاریخ پر ہر حالت میں کرانا ہے۔ 23 جولائی کی رات 12 بجے انتخابی جلسے جلوس ختم ہو جائیں گے، پھر 2 دن بعد پاکستان کے شہری حق رائے دہی کے لیے گھروں سے نکلیں گے۔

شعلے تو پہلے ہی بھڑک رہے تھے دلوں میں بھڑکنے والے شعلے ۔ جن کا مظاہرہ چاروں صوبوں میں عوام کر رہے تھے اور وڈیروں، سرداروں، گدی نشینوں کو اپنے دلوں میں بھڑکنے والے شعلوں کی تپش کا احساس دلا دیا۔

یہی شعلے اور بھی بھڑکیں گے، اب وقت آ گیا ہے اور ظالم سوچ رہے ہیں کہ اپنے محل، فارم ہاؤسز، اصطبل، کھیت، کھلیان کیسے بچائیں ۔ بینک بیلنس کہاں لے جائیں، بیرون ملک جائیدادیں کیسے چھپائیں؟

یہ سات دن بہت خاص ہیں، ان سات دنوں میں مزید دھماکے، خودکش حملے ہو سکتے ہیں، مگر پھر بھی انتخابات 2018ء ہر حال میں ہونے چاہئیں۔

ہم جو اس حقیقی منزل کی جستجو میں چل رہے ہیں، ہماری منزل اسی الیکشن 2018ء کے رستے سے گزر کر آگے جائے گی۔ فیضؔ ہمیں کیوں پیارا لگتا ہے کہ اس نے منزل کی نشان دہی کر دی ہے اور ساتھ پیغام بھی دے دیا ہے کہ ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ سو ہم چلے جا رہے ہیں۔ اور جالبؔ بھی یہ کہہ کر گیا ہے کہ ’’میں ضرور آؤں گا‘ اک عہد حسیں کی صورت‘‘ اور عوام خوب جانتے ہیں کہ جالبؔ اپنے عہد کا پکا ہے۔ اس نے کہا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ جالبؔ کا ’’عہد حسیں‘‘ ضرور آئے گا۔ ہم چل رہے ہیں اس ’’عہد حسیں‘‘ کی طرف اور راستے میں الیکشن 2018ء ہے، ہمیں اس راستے ہی سے گزرنا ہے۔

ہم عوام ہیں، صدیوں سے مسائل میں گھرے ہوئے، ہمیں اونچے اونچے مکانوں اور ان کے مکینوں سے کیا لینا دینا۔ ان کے اونچے اونچے گھروں میں ہم عوام کے لہو سے ’’روشنیاں‘‘ ہیں۔ ان ’’اونچوں‘‘ کے ساتھ جو ’’اچھا برا‘‘ ہو رہا ہے ہم عوام کیا جانیں، ہاں بس اتنا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ’’اونچے‘‘ آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ مگر بقول جالبؔ:

چھوڑو قصہ زرداریوں کا اپنی بات کرو

نام نہ لو‘ ان مکاروں کا اپنی بات کرو

تو اپنی بات یہی ہے کہ یہ الیکشن 2018ء اپنی مقررہ تاریخ یعنی 25 جولائی کے دن ضرور ہونا چاہئیں۔ ہارون بلور اور سراج رئیسانی کے ساتھ جو عام لوگ بھی جاں بحق ہوئے ہیں یہ عام لوگ بہت اہم تھے، انھوں نے ممبر اسمبلی نہیں بننا تھا۔ یہ وہ عام لوگ تھے جن کے لیے کل ہم یادگاریں بنائیں گے، مگر ہارون بلور اور سراج رئیسانی نے بھی ہم عوام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ یہ جو شعلے ان کے نذرانوں کی صورت بلند ہوئے ہیں ’’یہ شعلہ نہ دب جائے/یہ آگ نہ سو جائے/پھر سامنے منزل ہے/ایسا نہ ہو کھو جائے/۔ الیکشن 2018ء کو کھونے نہ دینا، یہ الیکشن ہوں گے تو ہی ہم عوام کا رستہ کٹے گا اور بہت سے اور ’’اونچے‘‘ پہچانے جائیں گے۔ ہم عوام کا کیا، ہم نے تو 70 سال میں دھوکے ہی کھائے ہیں، اب یہ الیکشن 2018ء بھی دیکھ لیتے ہیں۔

یہ آخری الیکشن ہوگا! اس لیے ہم عوام کو کسی اونچے کی چاہت فریب نہیں دے سکے گی، کیونکہ ہم عوام کی آنکھیں 70 سال میں بہت آنسو بہا چکی ہیں۔ اب ہم ہنسیں گے، روئیں گے قاتل عوام کے‘‘۔

ہم عوام کی نظریں ’’اس منزل‘‘ پر جمی ہیں جہاں عوامی انقلاب برپا ہوگا۔ ساحرؔ نے آرزو کی تھی ’’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘ یقینا ساحرؔ کی صبح آنے کو ہے۔ ساغرؔ صدیقی نے کہا تھا ’’ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے/ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے۔ ساغرؔکی بات ’’ہم عوام‘‘ کے دھیان میں ہے۔ ابھی ’’بڑے اندھیرے‘‘ ہیں۔ ابھی ہم عوام کو بڑے محاذوں پر لڑنا ہوگا اور اب پورا پاکستان دیکھ رہا ہے کہ عوام لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

ابھی پندرہ بیس روز پہلے مجھ سے میرے کالم نگار دوست مقتدا منصور نے پوچھا تھا ’’آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا تھا ’’اصل کہانی الیکشن کے بعد شروع ہوگی‘‘ میں نے یہ جواب سوال کے فوری بعد دیا تھا ، مجھے اس کے لیے سوچنا نہیں پڑا۔ جو ذہن میں تھا پھٹ سے میں نے کہہ دیا۔

اب الیکشن 2018ء کے بعد کیا ہونا ہے، ہم عوام اس کے لیے تیار ہیں، صف بند ہیں، بیدار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔