شیخ صاحب ’’تسی گریٹ ہو‘‘

سلیم خالق  جمعرات 19 جولائی 2018
حالیہ کارناموں کی وجہ سے میں آج شکیل شیخ صاحب کیلیے پرائیڈ آف پرفارمنس کی قرارداد پیش کرتا ہوں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

حالیہ کارناموں کی وجہ سے میں آج شکیل شیخ صاحب کیلیے پرائیڈ آف پرفارمنس کی قرارداد پیش کرتا ہوں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

گذشتہ برس کی بات ہے،لاہور میں پی سی بی کا سالانہ اجلاس عام جاری تھا، اچانک ایک صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور اعلان کیا کہ ’’ چیئرمین پی سی بی کی کرکٹ کیلیے خدمات پر میں ان کیلیے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کی قراردار پیش کرتا ہوں جسے منظور ہو اپنے ہاتھ فضا میں بلند کر لے‘‘ حیران و پریشان شرکا نے ہاتھ بلند کر لیے ساتھ یہ بھی سوچنے لگے کہ ایسا ماضی میں تو کبھی نہیں ہوا۔

اب اس سال کا قصہ بھی سن لیں، لاہور میں ہی کرکٹ بورڈ کا سالانہ اجلاس جاری تھا، پھر اچانک ایک صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور فرمایا ’’جناب میں ریجنز کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں،اجازت ملنے پر کہا کہ ’’چیئرمین صاحب نے ملکی کرکٹ کو فروغ دینے کیلیے بہت کچھ کیا ہے، تمام ریجنز کی جانب سے تحریری طور پر ان پر اظہار اعتماد کیا جاتا ہے‘‘ تالیاں بجتی ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ وہ صاحب شکیل شیخ ہیں، جس دن میں نے دیکھا کہ وہ چیئرمین سے بے رخی برتنے لگے ہیں بورڈ میں تبدیلی کا یقین ہو جائے گا۔

ابھی حالیہ میٹنگ سے کئی روز قبل ہی انھوں نے ریجنز کے سربراہان سے ملاقاتیں شروع کر دی تھیں اور نجم سیٹھی کو اعتماد کا ووٹ دینے کاکہا، بھئی مشیر ہو تو ایسا جو کرکٹ میں بہتری کا کوئی مشورہ دے یا نہیں مگر کرسی بچانے کیلیے ضرور آگے آ جاتا ہے، مگر کیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہو گا، بدقسمتی سے جواب ناں ہے، پہلے بھی لکھ چکا کہ پاکستان کرکٹ کی یہ تاریخ ہے یہاں حکومت تبدیل ہوئی تو بورڈ کا چیئرمین اپنے خاص لوگوں کے ساتھ دفتر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، پی ایس ایل، ملک میں کرکٹ کی واپسی اور بعض دیگر اہم معاملات میں سیٹھی صاحب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا مگرپی سی بی کی پوسٹ کا کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس میں اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔

جیسے نواز شریف نے انھیں نوازا، اب اگر نئی حکومت ان کی نامزدگی ہی واپس لینے کا فیصلہ کر لے تو کوئی اظہار اعتماد کا ووٹ نہیں بچا سکے گا،پھر کئی فائلز بھی نئی حکومتیں مناسب وقت میں کھولنے کیلیے تیار ہوتی ہیں، اگر عمران خان آ گئے تو پھر تو چیئرمین کے لیے خود ہی گھر جانا مناسب ہوگا، کوئی یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ ’’35 پنکچر‘‘ کا الزام لگانے کے بعد عمران خان، نجم سیٹھی کو چیئرمین برقرار رکھیں گے، ہاں البتہ شاید شیخ صاحب کو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اظہار اعتماد کا ووٹ دلاکر چیئرمین کو بچا لیا،نجانے کیوں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مجھے دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے شاید ذکا اشرف کے جاتے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا، ویسے شکیل شیخ بھی کمال کے انسان ہیں ۔

امریکاکو ان پر ریسرچ کرنی چاہیے کہ ایک انسان کیسے ہر بورڈ کے سربراہ کا خاص الخاص بن جاتا ہے،اعجاز بٹ، شہریارخان،ذکا اشرف یا نجم سیٹھی ہر کسی نے انہی کو ساتھ رکھا،انھوں نے بھی جب تک یہ یقین نہ ہوا کہ وہ جانے والا ہے ساتھ نہ چھوڑا، نجم سیٹھی نے گذشتہ عرصے کوشش کی کہ شیخ صاحب کو کرکٹ معاملات سے دور کریں مگر پھر کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ انھیں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے واپس لانا پڑا، اب گورننگ بورڈ میں نہیں تو چیئرمین کے مشیر تو ہیں، ویسے بعض نادان لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کرکٹ سے ایک سال کیلیے شکیل شیخ کو ہٹا دیں تو دیکھیں کتنی بہتری آتی ہے مگر مجھے نہیں لگتا کوئی ایسا کر سکے گا، انھوں نے ریجنز کو بڑی مضبوطی سے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔

اب آپ دیکھیں کراچی میں کے سی سی اے کے انتخابات سے قبل کیسے راولپنڈی میں بیٹھ کر’’ہم خیال گروپ‘‘ بنایا گیا، فیصل آباد میں کیسے حزب اختلاف کے اصل کلبزبھی جعلی قرار پائے، یہ کمال ایک ہی شخص کا ہے، نجانے ان کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ تمام ریجنز ان کی مٹھی میں ہیں، اسی لیے ہر بورڈ چیف کو بھی انھیں ساتھ رکھنا ہوتا ہے،ایک انگریزی اخبار میں بڑی پوزیشن کی وجہ سے اعلیٰ حلقوں میں بھی شکیل شیخ کا بڑا اثرورسوخ ہے اسی وجہ سے بعض لوگ ان سے ڈرتے بھی ہیں، پی ایس ایل میں بھی انھیں اتنی عزت ملتی ہے جیسے وہ کوئی سابق کپتان ہوں،دبئی کی سیر بھی ہوتی ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ ان کے تین بیٹے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک گذشتہ سیزن میں ان فٹ ہونے کے باوجود فیصل آباد کے اسکواڈ میں شامل رہا، کوئی میچ نہیں کھیلا لیکن ہر ماہ15 ہزار روپے ملتے رہے، کوئی بتا رہا تھا کہ ان کے بھانجے اور بھتیجے بھی مختلف ریجنز میں شامل ہیں، مگر میں اسے سچ نہیں مانتا اب ہر شیخ کو شکیل کا رشتہ دار تو نہیں بنایا جا سکتا، وہ اتنے ذہین انسان ہیں کہ ہر سال ڈومیسٹک کرکٹ میں تبدیلیاں کرا دیتے ہیں،کسی کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ پوچھے جناب آپ نے تو گذشتہ برس کہا تھا کہ یہ سسٹم بہترین ہے اب اس میں کیسے خامیاں آ گئیں؟ انگلش کاؤنٹی کرکٹ حکام اور آسٹریلوی شیفلڈ شیلڈ والوں کو بھی ان سے کچھ سیکھنا چاہیے، کوئی اور ہے جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں ڈرافٹ سسٹم لایا ہو؟

میں نے عمران خان کی بعض پرانی تصاویر دیکھیں جس میں وہ شیخ صاحب کے ساتھ ان کے گراؤنڈ کا دورہ کررہے ہیں، بس ان کی بنیاد پر اب لوگ خوامخواہ ڈر رہے ہوں گے کہ ’’ نئے پاکستان‘‘ میں بھی وہ فرنٹ سیٹ پر ہوں گے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے مگر حالیہ کارناموں کی وجہ سے میں آج شکیل شیخ صاحب کیلیے پرائیڈ آف پرفارمنس کی قرارداد پیش کرتا ہوں، جس طرح وہ ہر چیئرمین کے قریب آ جاتے ہیں انھیں یہ اعزاز ملنا چاہیے، اسی کے ساتھ میں یہ قرارداد بھی پیش کرتا ہوں کہ اگر بورڈ میں کوئی تبدیلی آئے تو نیا چیئرمین بھی انھیں اپنا مشیر بنائے،مجھے یقین ہے ملک کے لاکھوں کرکٹ کے پرستار ان قراردادوں کو ضرور منظور کریں گے، جاتے جاتے بس اتنا اور کہوں گا کہ ’’شیخ صاحب تسی گریٹ ہو‘‘۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔