خون میں کینسر کے ذرات شناخت کرنے کیلئے مقناطیسی تار ایجاد

ویب ڈیسک  جمعـء 20 جولائی 2018
اس فرضی تصویر میں سرطانی خلیات مقناطیسی تار سے چپکے ہوئے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ سیم گھمبیر

اس فرضی تصویر میں سرطانی خلیات مقناطیسی تار سے چپکے ہوئے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ سیم گھمبیر

اسٹینفورڈ: امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا مقناطیسی تار بنایا ہے جو خون میں تیرتے ہوئے کینسر خلیات اور ذرات کو خاص نینوذرات کے ذریعے اپنی جانب کشش کرے گا۔

یہ حیرت انگیز تکنیک اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے وضع کی ہے جس میں رگ کے اندر عین اینجیوگرافی کی طرح چھوٹا تار ڈالا جائے گا جو خون میں تیرتے ہوئے سرطانی خلیات کو پکڑ کر مرض کی شدت کی تصدیق کرسکے گا۔ اس طرح خون کے ذریعے کینسر کو ابتدا میں ہی بروقت شناخت کیا جاسکتا ہے۔

جدید دنیا میں کینسر کی شناخت اور علاج دونوں طریقوں پر ہی دن رات کام جاری ہے۔ اس ضمن میں خون کے بایومارکرز کو دیکھتے ہوئے کئی ٹیسٹ بنائے گئے ہیں جبکہ حال ہی میں جلد کے کینسر کی شناخت کےلیے بھی خون کا ایک ٹیسٹ تیار کیا گیا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ کینسر کے ذرات اور خلیات بدن کے دیگر حصوں تک خون کے ذریعے سفرکرکے تیزی سے پھیلتے ہیں اسی طرح خون میں موجود کینسر کے آثار کی شناخت کا طریقہ بہت مؤثر ہے جس سے مرض کی کیفیت اور شدت دونوں سامنے آجاتی ہے۔ لیکن خون میں تیرنے والے خلیات کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ انہیں روایتی طریقوں سے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا اور اسی لیے اب مقناطیسی تار کا نیا طریقہ پیش کیا گیا ہے۔

اس مطالعے کے سربراہ اور مصنف سیم گمبھیر کہتے ہیں کہ بسا اوقات کینسر کے مریضوں کے خون کے کئی ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اور ان میں ایک بھی سرطانی خلیہ نہیں ملتا ۔ یہ کام عین اسی طرح مشکل ہے جس طرح نہانے کے ٹب میں موجود ریت کا ایک ذرہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔

اس کے لیے پہلے بدن میں بہت چھوٹے مقناطیسی نینوذرات شامل کیے جاتے ہیں جو خون میں تیرتے ہوئے سرطانی خلیوں سے چپک جاتے ہیں ۔ اس کے بعد جب مقناطیسی تار رگ میں اتارا جاتا ہے تو وہ کینسر والے خلیات اس تار سے چپک جاتے ہیں اور یوں مریض میں سرطان کی شدت اور کیفیت کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

جب اسے خنزیروں پر آزمایا گیا تو اس کے زبردست نتائج برآمد ہوئے اور انہوں نے روایتی ٹیسٹوں کے مقابلے میں 10 سے 80 گنا زائد سرطانی خلیات کو پکڑ لیا۔ گھمبیر کے مطابق ’ خون کی 80 ٹیسٹ ٹیوبز کی سے سرطانی خلیات ڈھونڈنے میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔‘

چوہوں پر کئے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ نینوذرات کو اگر خون میں ڈالا جائے تو اس کا کوئی برا اثر نہیں ہوتا۔ اگلے مرحلے میں اسٹینفرڈ کے ماہرین اسے انسانوں پر آزمانے کی تیاری کررہے ہیں ۔ اگر اس کی اجازت ملتی ہے تو انسانی بازو کے اندر کچھ منٹ مقناطیسی تار رکھنے سے کینسر کی شناخت آسان ہوسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔