جرم سرقہ اور سزا

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 20 جولائی 2018
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

شریعت نے جس طرح کسی مسلمان کی عزت اور جان کو قابل احترام قرار دیا ہے اسی طرح اس کے مال کو بھی قابل احترام گردانا ہے۔ چوری کرنے والا ایسا ہے گویا وہ مسلمان نہ رہا ہو اور اپنی خون پسینے کی کمائی کی حفاظت میں مارے جانے والا ایسا ہے گویا کہ شہید ۔ شریعت نے معاشرے میں امن و امان اور سکون و اطمینان کی خاطر اس مالی جرم سے متعلق محض خوف آخرت اور اخلاقی پند ونصیحت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عبرتناک سزا مقررکی تاکہ اس کا مرتکب جب تک زندہ رہے شرمندہ رہے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بنا رہے۔

ازروئے شریعت کسی مکلف شخص کا بقدر نصاب یا اس سے زائد کسی غیر شخص کا مال معصوم و متقوم، مقام محروز و محفوظ سے بقصد جرم، خفیہ طور پر لے لینا سرقہ کہلاتا ہے۔

سرقہ کے چار بنیادی ارکان ہیں۔

(1)۔ مالک کی رضا مندی کے بغیر خفیہ طور پرکسی مال کا اڑا لینا۔

(2)۔ مال کا قیمتی ہونا۔

(3)۔مال کا محفوظ جگہ پر ہونا۔

(4)۔ جرم کی نیت ہونا۔

سرقہ موجب حد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ (1) چور عاقل اور بالغ ہو (2) مذکر، عادل گواہ چوری کی اصالتاً شہادت دیں (3)جس کی چوری ہوئی ہو وہ خود دعویٰ کرے۔ مدعی سست گواہ چست والی بات نہ ہو (4) چور قسم اٹھانے سے انکار نہ کرے (5)چور کا جرم سرقہ کا اقرار کرنا۔

اسلامی شریعت میں چوری کی حد قطع ید ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سزا کے ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

(سورۃ المائدہ آیت۔38)

اسلام میں ہر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں۔ بلکہ یہ سزا مال مسروقہ کا بقدر نصاب ہونے پر اور ارکان و شرائط کا مکمل طور پر پائے جانے پر ہے۔ احناف کے نزدیک چوری کے نصاب کی مقدار دس درہم یا ایک دینار ہے۔ جس کی مالیت پاکستانی اوزان کے اعتبار سے ساڑھے چار ماشہ سونا یا اس کی قیمت ہے۔ دس درہم سے کم میں اختلاف ہے لیکن دس درہم پر اجماع ہے۔

اگر چور حد کی زد میں صد فی صد آگیا تو پھر قطع ید سے بچ نہیں سکتا، کیونکہ حد مقررہ سزا ہے جو بطور حق الٰہی واجب ہے۔ اور ناقابل معافی اور ناقابل مصالحت ہے۔

جب شرعاً چوری ثابت ہوجائے تو چور کا داہنا ہاتھ ہتھیلی کے جوڑ سے کاٹ دیا جائے گا اور خون بہنا بند کردیا جائے گا۔ اگر دوسری مرتبہ چوری کرے تو اس کا بایاں پاؤں ٹخنے سے کاٹ دیا جائے گا اور اگر تیسری بار چوری کرے تو اسے قید میں اس وقت تک کے لیے ڈال دیا جائے گا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔

اگر چور کا بایاں ہاتھ ناکارہ ہو یا داہنا پاؤں کٹا ہوا ہو تو پھر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس لیے کہ داہنا ہاتھ کاٹ دینے سے چور اپنی ضروریات کی تکمیل سے بالکل معذور و مجبور ہوجائے گا۔ البتہ توبہ تک اسے قید میں رکھا جائے گا۔

بعض چوریاں ایسی ہوتی ہیں جو شکل میں چوری نظر آتی ہیں لیکن اصل میں چوری نہیں ہوتیں کیونکہ ان میں سرقہ کے ارکان و شرائط میں سے کسی نہ کسی عنصر کی کمی، کجی یا شبہ کا احتمال پایا جاتا ہے۔ اس لیے حد قطع ید ساکت ہوجاتی ہے اور سارق سے مقررہ سزا ساقط ہوجاتی ہے۔ مثلاً

(1)۔ارتکاب سرقہ خفیہ نہ ہو اس ضمن میں کسی سے مال چھین جھپٹ کر فرار ہوجانا، امانت میں خیانت کرنا، ادھار لے کر واپس نہ کرنا، قرضدارکے مال سے قرض کے مساوی یا زائد مال چرا لینا۔

(2)۔وہ مال جس میں سارق خود شریک ہو یا شریک جیسا ہو یا ملک شبہ ہو۔

(3)۔ مسروقہ چیز مالیت نہ رکھتی ہو مثلاً نشہ آور چیزوں کی چوری کرنا، آلات موسیقی چرانا۔

(4)۔ مال غیر محفوظ ہو مثلاً کفن چوری کرنا، کسی کا حرز میں داخل ہونے کا مجاز ہونا، مہمان کا اپنے میزبان کے گھر چوری کرنا، خادم کا اپنے مالک کی چیز چرانا، مال مباح ہونا۔

نیز پرندے چرانا، جلد خراب ہونے والی اشیا، لٹکے ہوئے پھل اور کھانے کی چیز چرانا، حقیر اور معمولی نوعیت کی چیز چرانا، علمی کتب چرانا، امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک علمی کتب کی چوری پر حد نہیں۔ لیکن امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک ان کی چوری پر حد ہے کیونکہ یہ ایک قیمتی مال ہے اور ان کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔

اقدام سرکہ کے بعض حالات جن میں مجرم کو قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی مثلاً چور ارتکاب جرم کا آغاز کردے مگر کسی وجہ سے جرم کی تکمیل نہ کرسکے، حرز کے اندر داخل ہونے سے قبل پکڑا جائے۔ مال جمع کرلے اور اٹھا کر چلے مگر حرز سے باہر نکلنے سے قبل ہی پکڑا جائے۔ چور مسروقہ سامان پھینک دے اور کوئی اور اٹھا کر بھاگ جائے وغیرہ۔

اس کے معنی یہ نہیں کہ مندرجہ بالا جرائم کے ارتکاب پر سرے سے کوئی سزا ہی نہ دی جائے گی مطلب یہ ہے کہ ان نوعیت کے جرائم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ مگر تعزیری سزا دی جائے گی جو حکومت، قاضی، حاکم کی صوابدید پر ہے کہ وہ جیسی اور جتنی سزا مناسب سمجھے مجرم کو دے۔ کیونکہ تعزیر غیر مقررہ سزا ہے۔ اس لیے حاکم کے لیے تعزیر میں حالات کی نزاکت اور مصلحت کے پیش نظر معافی کی گنجائش ہے۔ مختصر یہ کہ جرم سرقہ کو ارکان و شرائط کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ ان کی میزان میں جانچا اور تولا جائے گا۔ پورا اترنے کی صورت میں حد ہے ورنہ تعزیر۔

جو لوگ اسلامی تعلیمات سے لاعلم ہیں ان کو دوست نما دشمن اور دشمن اسلام خوفزدہ کرتے ہیں کہ معاشرے کا تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ غربت ہے، بے روزگاری ہے، انسان معاشی مجبوریوں میں گھرا ہوا ہے۔ بحالت مجبوری اگر کسی نے چوری کرلی اور پکڑا گیا تو فوراً اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس طرح ہر طرف ہاتھ کٹے انسان نظر آئیں گے اور یہ صریحاً ظلم ہوگا۔ پہلے معاشرے کی اصلاح ہو پھر نفاذ شریعت ہو۔ یہ سب باتیں ہیں چھلنی میں پانی لانے کی۔ نفاذ شریعت میں رکاوٹ پیدا کرنے اور مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی۔

اگر ہم زیر نظر مختصر تحریرکو دوبارہ بہ نظر غائر پڑھیں تو دشمن کی اسلام سے پیدا کردہ نفرت اور اس کی سزاؤں سے متعلق خوف اور بدظنی دشمن کی ایک چال اور سازش نظر آتی ہے۔ جرم سرقہ کے ہر رکن اور ہر شرط کا کماحقہ، پایا جانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مثلاً چورکا چوری کا اقرار نہ کرنا یا اقرار کرنے کے بعد انکار کردینا تو ہاتھ کاٹنے کی سزا ساقط ہوجائے گی۔ جو کہتے ہیں کہ ہر طرف ہاتھ کٹے انسان نظر آئیں گے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر ہاتھ کٹے انسان نظر آئے تو ایسے ہوں گے جیسے آٹے میں نمک۔ اسلام رحم و کرم کا مذہب ہے ظلم و ستم کا نہیں۔ وہ ہاتھ کے کٹاؤ کا نہیں، شکوک و شبہات اور ارکان و شرائط کے فقدان کی صورت میں ہاتھ کے بچاؤ کا پرزور حامی ہے کیونکہ اسلام مذہب عدل و رحمت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔