تذکرہ کراچی سے چند امیدواروں کا

انیس باقر  جمعـء 20 جولائی 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

کراچی جوکبھی سیاسی میدان میں سرفہرست ہوتا تھا ملک کے نامور لیڈر عوامی قیادت کا علم بلند کرتے تھے۔ آج یہاں ایسی کوئی شبیہ نظر نہیں آتی۔ قابل افسوس تو ورکرز پارٹی ہے جہاں اسے اتنے بڑے ورکروں میں ایک امیدوار بھی نہ ملا یا تو یہ پارٹی باضابطہ طور پر علامہ طاہر القادری کے طور پر الیکشن بائیکاٹ کا اعلان کرتی تاکہ اس کے چاہنے والے مایوس نہ ہوتے۔

بہرحال شہر کراچی سے میری نظر ذاتی طور پر چند امیدواروں پر پڑی جو عوامی مسائل کا درد ذاتی حیثیت میں لیے ہوئے ہیں۔ میرا زاویہ نگاہ ان کی پارٹی بنیادوں پر ہرگز نہیں بلکہ ذاتی حیثیت اور ماضی کی کارکردگی یا نظریات سے وابستگی ہے یا اس بیک گراؤنڈ سے ہے جن سے ان کی وابستگی رہی اور امید کے چند دیے روشن نظر آرہے ہیں۔ نہ ہوس زر ہے اور نہ ایمان فروشی کی توقع ان امیدواروں سے کی جاسکتی ہے۔ ویسے تو ملک کے اس وسیع منظرنامے میں لاتعداد لوگ باظرف موجود ہیں ، نہ میری ان تک رسائی ہے اور نہ ہی مختصر منظرنامے میں گنجائش ان میں قومی اسمبلی کی دو خواتین ہیں اور دو عدد مرد حضرات۔ خواتین میں محترمہ کشور زہرہ ہیں جو باجی کے نام سے مشہور ہیں این اے 242 ، دوسری خاتون سیدہ شہلا رضا این اے 243 ۔ آئیے پہلے ان دو خواتین کے متعلق تھوڑا تذکرہ کرتے چلیں۔

محترمہ کشور زہرہ نے سیاست میں آنے سے قبل بچوں اور خواتین کے لباس کو اپنا ذریعہ معاش بنایا اور ایک وقت ایسا آیا کہ خواتین کی پوشاک بنانے میں ان کا مثل نہ رہا اور ایک بڑے آفس کی مالکن بن گئیں اس کے علاوہ سیاست میں بھی اپنا نمایاں مقام رکھا۔ قدم بڑھانے اور لاکھوں کا مجمع خصوصاً خواتین کے اجتماعات کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ رہا۔ سماجی کام میں صرف ایک جملہ کافی ہوگا کہ ایس آئی یو ٹی میں ملک کے نامور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی  کے اسپتال میں بے لوث خدمات انجام دے رہی ہیں اور عام آدمیوں کی پہنچ سے کبھی دور نہیں رہیں۔ مشکلات سے نمٹنا اور عوام کی آواز پر لبیک کہنا خواہ وہ شخص کسی بھی مسلک اور نظریے کا حامی ہو حالانکہ باجی جس پارٹی سے منسلک ہیں میرا اس سے کوئی تعلق نہیں البتہ باجی کی عوام دوست شخصیت نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔

دوسری خاتون سیدہ شہلا رضا ہیں طالب علمی کے زمانے میں شہلا ایک اچھی مقررہ تھیں نیشنل کالج میں مجھے ایک مہمان مقرر کی حیثیت سے تقریباً 25 برس پہلے بلایا گیا تھا تو میں نے انھیں سنا تھا پھر گاہے بہ گاہے پی پی پی کے پلیٹ فارم کی جانب سے ان کو ٹی وی پر سنا آرٹس کونسل میں بھی محترمہ کے نیاز حاصل ہوتے رہے۔ ان کی پی پی کے لیے زمانہ طالب علمی سے قربانی جاری رہی۔ ہاں ان سے ایک رشتہ اور ہے وہ ہے ان کے شوہر جو ایک زمانے میں این ایس ایف کے اہم رکن تھے اور لکھنے پڑھنے میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے مگر چونکہ یہ وزرا کی فہرست سے قریب تر ہیں اس لیے ان سے زیادہ ملاقات نہیں رہتی اور نہ پی پی پی کا کوئی رہنما بننے کا شوق ہے بس یہی کافی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی الیکشن کمپین میں سرگرم رہا ہوں البتہ پی پی کے پرانے لوگوں سے ایک تعلق رہا ہے۔

اس کے علاوہ شہلا رضا  نے مشکل دن بھی دیکھے ہیں اور ان کے شوہر مسٹر قادر اور شہلا کے دو بچے جب یہ لوگ ابوالحسن اصفہانی روڈ کے قریب رہائش پذیر تھے  بغیر دیواروں کے نالے میں گر کے فوت ہوچکے ہیں۔ غربت کے دور کے یہ داغ یہ اب تک نہیں بھولے اور غریب طبقے کے لیے دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہے۔ خواہ وہ واقف ہوں یا ناواقف، سفارش کی ضرورت نہیں۔ سیدہ شہلا رضا اور ان کے شوہر کے دل تمام مکاتب فکر کے لیے کھلے ہیں اور ہر شخص کے لیے محبت کے در وا ہیں ظاہر ہے یہ لوگ عوام کی رقم کو اپنی ذات پر کبھی خرچ نہ کریں گے اور یہی این اے 253 پر مہر لگانے کا موقع ہے۔ امید ہے کہ عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوکر تائید کریں گے ۔

اب باری ہے میرے مرحوم دوست کے لخت جگر وہاب صدیقی کے فرزند مرتضیٰ وہاب کی، ان کے والد این ایس ایف کے معروف رکن اور تجزیہ نگار تھے۔ مرحوم ہمدرد دوا خانہ کے علمی ادبی شعبے سے وابستہ تھے مگر اچانک ایک روز داغ مفارقت دے بیٹھے ان کی والدہ مرحومہ فوزیہ وہاب نے بڑی مشقت سے اعلیٰ تعلیم دی اب یہ بار ایٹ لا کے زیور سے آراستہ ہیں نوجوان ہیں اور ان کو سیاسی پارٹی کی کلیدی حمایت ہے اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 111 کے امیدوار ہیں۔ انھوں نے بچپن سے سخت و سست دیکھ رکھے ہیں اور حق کے ذاتی طور پر پرستار ہیں کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیتے گزری، دہلی کالونی پنجاب کالونی، چانڈیو گوٹھ، ریلوے کالونی، کالا پل کے علاقے شامل ہیں ان کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے انھوں نے اپنے حلقے میں کئی بار خصوصاً غریب علاقے میں زیادہ وزٹ کیے ہیں ۔

اس علاقے کے غریب اور متوسط ساکن پانی کی کمی کا بے حد شکار ہیں اور پانی خریدنے پر مجبور ہیں گوکہ ان میں پانی خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ مگر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو مشکلات کا ادراک ہے اور رواداری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لہٰذا صوبائی اسمبلی کے لیے ان کو نمایندگی کا استحقاق ہے۔ اور اب باری آتی ہے کراچی کے حلقے قومی اسمبلی 247 جس میں ڈیفنس اور کلفٹن شامل ہے یہاں شہر کا سب سے بڑا سیاسی دنگل سجا ہے ملک کے نامی گرامی سیاسی جغادری اپنے اپنے داؤ پیچ کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ ان میں جبران ناصر جن کی کوئی پارٹی نہیں لیکن ان کو ترقی پسند اور دانشوروں اور عوامی ادراک سے بھرپور لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔

ان میں عوام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کی ہمت موجود ہے ان سے میرا کوئی براہ راست رابطہ نہیں مگر احباب سے ان کی جرأت کی داستان سنتا رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ چونکہ مجھے آمروں سے اور ان کے چیلوں سے الجھنے کی عادت رہی ہے اور مارشل لا کے خلاف ماضی میں مزاحمت کی ہے اس لیے مسٹر جبران کے قول و فعل کو پڑھتا اور دیکھتا رہا ہوں۔ انھوں نے ہمیشہ مظلوموں کی تربت پہ صرف چراغ نہیں جلائے بلکہ محروم اور مجبور لوگوں کے حق میں اکثر ایسے قدم اٹھائے جن میں جان بھی تن سے جدا ہوسکتی تھی۔

یہ عوامی حقوق کے گراں قدر سپاہی ہیں اور ہر ظالم کو للکارنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر ایک پاکستانی عورت ہو یا مرد مساوی انسانی حقوق کے حامل ہیں ان کے عقائد اور نظریات ایک مرد کامل کے ہیں اور پروٹوکول مافیا کے شدید مخالف ہیں۔ وسائل کی کمی کے باوجود ان کے قافلے میں قلم اور علم کے سپاہی شامل ہیں۔ اب تک جو کچھ کہا کوشش کی ہے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ مگر ایک بات جو کہنی تھی وہ یہ کہ ورکرز پارٹی نے پاکستان کے سب سے اہم ورکرز کے شہرکو نظراندازکیا اور کوئی امیدوار نہ کھڑا کیا۔ خیرکوئی بات نہیں جبران ناصر نے بڑی حد تک یہ کمی پوری کردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔