حج، تزکیۂ نفس کے ذریعے رضائے الہی کا حصول

نگہت فرمان  جمعـء 20 جولائی 2018
خدارا حج کو پکنک مت سمجھیے۔ وہ تمام امور جو سراسر حرم کی تعظیم کے منافی ہیں، ایک مسلمان کو ان سے،ہر حال میں بچنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

خدارا حج کو پکنک مت سمجھیے۔ وہ تمام امور جو سراسر حرم کی تعظیم کے منافی ہیں، ایک مسلمان کو ان سے،ہر حال میں بچنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

اسلامی عبادات میں حج بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ رسولِ کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی گواہی کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘

حج بہت زیادہ اجر و ثواب کا حامل ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہٰذا، حج کرو۔ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، پھر نہ کوئی فحش بات کرے اور نہ کوئی گناہ کرے، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا، جیسے وہ اس روز (گناہوں سے پاک تھا) جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ اور ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ، درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور وہ حج جسے ادا کرنے میں سارے تقاضے پورے کیے گئے ہوں، اس کا بدلہ، لازماً جنت ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے :

’’ وہاں واضح نشانیاں ہیں۔ مسکن ابراہیم ہے۔ جو اس میں داخل ہوجائے وہ امان میں ہے۔ اور اللہ کی خاطر، لوگوں پر، اگر وہ اس کی استطاعت رکھتے ہوں، بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ اور جس نے کفر کیا تو (جان رکھو) اللہ عالم والوں سے بالکل بے نیاز ہے۔‘‘

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، مفہوم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جسے حج سے کسی بڑی ضرورت، کسی ظالم حکم ران، اور کسی بے بس کر دینے والے مرض نے نہیں روکا اور وہ حج کیے بغیر مرگیا تو (خدا کو اس کی پروا نہیں کہ) وہ مرے، خواہ یہودی ہوکر، خواہ نصرانی ہوکر۔‘‘

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اسلام پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد تزکیۂ نفس ہے۔ حج، تمام عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ بیت اللہ ہماری نمازوں کا مرکز ہے۔ وہ سب سے پہلی مسجد ہے، جو اسی مقصد کے لیے بنائی گئی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’ میں نے ابراہیم اور ان کی ذرّیت کو مکہ میں اسی لیے بسایا تھا کہ وہ میرا یہ گھر طواف، قیام اور رکوع کرنے والوں کے لیے پاک رکھیں۔‘‘

حج، اللہ کی طرف بڑھنے، دنیاوی خواہشات ترک کرنے اور اس کے ساتھ لو لگانے کی عبادت ہے۔ حج کے لیے بندہ اپنی ضروریات روک کر حج کے اخراجات کا بندوبست کرتا اور اپنے معاملات چھوڑ کر اللہ کے گھر کے لیے عازم سفر ہوتا ہے۔ حج کے دنوں میں وہ ایک مجاہد کی طرح کبھی پڑاؤ اور کبھی سفر کے مراحل سے گزرتا اور ان میں پیش آنے والی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ حج ایک جامع عبادت ہے۔ احرام باندھنا، اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے دنیا سے اپنا تعلق ختم کرلیا اور دنیا کے معاملات چھوڑ دیے ہیں۔ احرام کے اَن سلے لباس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم زیب و زینت کی زندگی ترک کرکے، وہ لباس پہن کر خدا کے حضور میں حاضر ہوگئے ہیں جس لباس میں مردہ قبر میں اتارا جاتا ہے۔ پھر ہماری زبان پر وہ کلمہ ہوتا ہے جس سے ہمارے خدا کے حضور حاضری کے والہانہ جذبے کا اظہار ہوتا ہے اور جس میں ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔

’’حاضر ہوں، اے اللہ ، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، بے شک، حمد تیری ہے، نعمتیں تجھ سے ہیں، اقتدار تیرا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘

قرآن مجید میں فرمان الہی کا مفہوم ہے: ’’حج کے متعین مہینے ہیں، چناں چہ جس نے حج کا عزم کرلیا، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ نہ کوئی فحش بات کرے، نہ گناہ اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔ جو نیک کام تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہے۔ (تقویٰ کا) زاد راہ لو، بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ اور اے عقل والو، مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘

روزہ رکھ کر جو کیفیت ایک مسلمان پر طاری ہوتی ہے، وہی کیفیت ایک حاجی کی احرام باندھنے کے بعد ہوتی ہے اور جس طرح، روزہ دار اگر روزے کے آداب کا خیال نہ رکھے تو اسے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح ایک حاجی بھی اپنی ساری محنت کو گناہ کی باتوں کے باعث غارت کرسکتا ہے۔ حجر اسود کو علامت کے طور پر اللہ کا ہاتھ قراردیا گیا ہے۔ طواف کا آغاز اسے بوسہ دینے یا اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر کیا جاتا ہے۔ ہاتھ پر بوسہ یا ہاتھ پر ہاتھ رکھنا عقیدت اور معاہدے کی توثیق کا ایک طریقہ ہے۔ حاجی طواف کے آغاز میں یہ عمل کرکے ’’ بسم اللہ، اللہ اکبر‘‘ کہہ کروہ دعا پڑھتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد وفا کی تجدید کی جاتی ہے، مفہوم: ’’اے اللہ، (میں حاضر ہوں) آپ پر ایمان کی خاطر، آپ کی کتاب کی تصدیق کے لیے، آپ کا عہد پورا کرنے اور آپ کے نبی محمد ﷺ کی سنت کی اتباع کے لیے۔‘‘ سر منڈانا زمانۂ قدیم میں غلام بننے کی علامت تھی۔ جب کوئی شخص کسی کا غلام بن جاتا تو اس کا سر مونڈ دیا جاتا تھا۔ حاجی اپنا سر منڈا کر غلامی رب کا نشان سجا لیتا ہے۔ پھر، عرفات کا وقوف، درحقیقت، اپنے آپ کو خدا کے حضور میں کھڑا کر دینا ہے۔ حضور ﷺ نے اس میں یہ سنت قائم کی کہ خطبے اور دوپہر کی نمازوں کے بعد مغرب کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور اس وقت تک کھڑے دعا فرماتے رہے، جب تک سورج غروب نہیں ہوگیا۔ اس دوران بندۂ مومن اپنے گناہوں کو یاد کرتا، استغفار کرتا اور دعائیں مانگتا ہے۔

مزدلفہ میں، وقوف تو عرفات کے مقابلے میں مختصر ہوتا ہے، لیکن عرفات و مزدلفہ کے مابین یہ سفر جہاد کے سفر کی علامت بن جاتا ہے۔ ایک مقام پر رکے، پڑاؤ کیا، پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں نمازیں بھی جہاد سے مشابہت ہی کی وجہ سے قصر پڑھی جاتی ہیں۔ جمرات کو کنکر مارنا، خدا کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے کی علامت ہے۔ اس طریقے سے بندۂ مومن خدا کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے جذبے کا اظہار کرتا ہے۔ قربانی جہاد کا آخر ی پہلو ہے، اس طرح کہ جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو حج میں قربانی کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ بندۂ مومن قربانی اس جذبے کے ساتھ کرتا ہے کہ جس طرح اس نے خدا کی خوش نودی کے لیے جانور قربان کیا ہے، اسی طرح، اگر اس کے دین کو ضرورت پڑی، تو وہ اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردے گا۔

ایک حاجی کا حج سے اصل مقصود اپنے خدا کی رضا اور خوش نودی ہونا چاہیے۔ قرآن میں ارشاد باری ہے: ’’ اور حج اور عمرہ صرف اللہ کے لیے کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ ان کا مقصود نہ خدا کے علاوہ دوسری ہستیوں کی خوش نودی ہونا چاہیے اور نہ ان کے پیش نظر اس سفر سے محض تجارتی فوائد اٹھانا ہو۔ ان کی غرض صرف اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا ہونا چاہیے۔ حدود حرم میں لڑائی جھگڑا، تھوکنے یا ناک صاف کرنے میں حرم کی حرمت پیش نظر نہ رکھنا، اسی طرح پردے اور اوٹ کا ضروری اہتمام نہ کرنا اور ستر پوشی کا خیال نہ رکھنا، یہ تمام وہ باتیں ہیں جو سراسر حرم کی تعظیم کے منافی ہیں اور ایک مسلمان کو ان سے، ہر حال میں بچنا چاہیے۔ اور آخری چیز جسے ہر حاجی کو پیش نظر رکھنا چاہیے، وہ مناسک حج کی وہ حکمت اور فلسفہ ہے، جس کا اجمالی ذکر اوپر کی سطور میں آچکا ہے۔ اگر مناسک حج ادا کرتے ہوئے، ان کی روح ختم ہوجائے، تو وہ محض رسم کا ادا کر دینا ہے۔ اور ایسے حج سے، وہ تزکیۂ حاصل نہیں ہو سکتا، جو اس سے مقصود ہے۔

حج کا اہتمام اور بیت اللہ کی تعظیم و تکریم اور اس کے آداب پر بات کرنے کے بعد ہم ایک انتہائی تشویش ناک اور حج کو برباد کردینے والے امور پر توجہ مبذول کرتے ہیں۔ حج کو مشقت سے جوڑا گیا ہے، اس میں مالی قربانی سے لے کر جسم کی مشقت بھی شامل ہے۔ اور یہ صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہم تقوی اختیار کریں تاکہ ہمارا تزکیۂ نفس ہوسکے جو اصل مطوب ہے۔ ہم تمام امور سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے معبود کی جانب توجہ رکھیں کہ عبادت کا اصل جوہر ہر حال میں توجہ اور رجوع الی اللہ ہے۔

آج کل بدنصیبی سے ہم نے حج جیسی عظیم الشان عبادت کو معاذاللہ سیر و تفریح اور ایک پکنک میں بدل دیا ہے ۔ یاد رکھیے یہ کوئی پکنک نہیں بل کہ احکام الہی کی پابندی کا عہد کرنا ہے۔ آج کل امراء اور متوسط طبقے کے حج میں بھی فرق پیدا ہوگیا ہے۔ حج جیسے مقدس فریضے میں بھی دولت مندوں نے اپنی آسائشوں کے لیے مال و دولت کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب یہ ایک عمومی رجحان بن گیا ہے کہ جس کے پاس دولت ہے وہ بہ ہر صورت حج کرنے پہنچتا ہے بل کہ اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ حج زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے اس کے بعد آپ جتنے بھی حج کرلیں وہ نفل میں شمار ہوں گے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہاں پہنچ کر لوگ بہ جائے عبادت کی جانب توجہ دیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر لمحے کی تصویرکشی کریں۔ اکثر لوگ جن میں امراء کے ساتھ متوسط طبقے کے لوگ بھی جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے اپنی سیلفی بنانے میں مگن رہتی ہے اور صرف یہی نہیں بل کہ اپنی تصاویر اور وڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کرتی ہے، نتیجتا لوگ ان پر تبصرہ کرتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ دراز ہوتا رہتا ہے۔ یہ تمام وہ باتیں ہیں جو سراسر حرم کی تعظیم کے منافی ہیں اور ایک مسلمان کو ان سے، ہر حال میں بچنا چاہیے۔

خدارا حج اور عمرے کو پکنک نہ سمجھیں اور اپنے ہر لمحے کو قیمتی بناتے ہوئے رضائے الہی کے حصول کے لیے صرف کریں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔