قدیم ساز اور بیماری کا علاج!

 ہفتہ 21 جولائی 2018
نئی نسل تو جدید دور کے آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور اسے روایتی سازوں میں ذرا دل چسپی نہیں۔ فوٹو : فائل

نئی نسل تو جدید دور کے آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور اسے روایتی سازوں میں ذرا دل چسپی نہیں۔ فوٹو : فائل

قدیم بلوچی ساز سروز کو سازندے میسر نہیں اور جو اس کے وجود سے سُر اور لَے چھیڑنا جانتے ہیں، وہ نانِ شبینہ کی محتاجی کے بعد اُس خوشی اور مسرت سے دور ہوتے جارہے ہیں جو سروز کے تاروں میں پوشیدہ ہے۔

نئی نسل تو جدید دور کے آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور اسے روایتی سازوں میں ذرا دل چسپی نہیں۔ اگرچہ اب بھی یہ ساز بلوچ موسیقی کا حصّہ ہے اور اسے بجا کر خوشی کے گیت گائے جاتے ہیں، مگر دوسرے مقامی آلاتِ موسیقی کی طرح اس کا مستقبل بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔ کب اور کس نے سروز ایجاد کیا، اس کا ذکر تو کتب میں نہیں ملتا، مگر اسے صدیوں سے بلوچ موسیقی کا حصہ بتایا جاتا ہے۔

ایک خیال ہے کہ سروز لفظ سُر سے نکلا ہے جس کے معنی مٹھاس کے ہیں اور سال ہا سال سے یہ ساز خوشی کی تقاریب میں شادمانی کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔ دل چسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اسی ساز کی مدد سے گوات نیمون نامی بیماری کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ بلوچ تصور کے مطابق سروز خصوصاً خواتین کو واہمہ (گوات نیمون) نامی بیماری سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

عام طور پر یہ ساز شیشم اور مقامی پَرپگ نامی لکڑی کو تراش کر بنایا جاتا ہے۔ اس میں تاروں کی تعداد بارہ سے سترہ ہو سکتی ہے۔ سروز بجانے کے لیے اکثر شاگ کے درخت کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ سروز کو بجانے والا اسی ساز کی نسبت سروزی کہلاتا ہے۔ اس ساز کے حوالے سے پاکستان میں سچّو خان ایک بڑا نام ہے اور انہیں بلوچ سازندوں میں استاد کا درجہ دیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔