تبدیلی کیا ہے اور کیسے آتی ہے؟

طاہر فاروق طاہر  اتوار 22 جولائی 2018
پاکستان میں مثبت تبدیلی کےلیے ہمیں کسی غیبی مدد کی امید رکھنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں مثبت تبدیلی کےلیے ہمیں کسی غیبی مدد کی امید رکھنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ہم ایک باشعور، تعلیم یافتہ اور باہمت قوم کے فرد ہیں۔ ایسے افراد جب کوئی مقصد بنا لیتے ہیں تو اسے حاصل کیے بغیر سکون سے نہیں بیٹھتے کیونکہ جب تک انہیں اپنا مقصد حاصل نہیں ہوتا، ان کی روح بے چین و بے سکون رہتی ہے۔ اس لیے وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے ہر جائز کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان میں ہر طرف ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ہے، اور وہ ہے تبدیلی کا نعرہ۔ میرا ایک سوال آپ سب دوستوں سے یہ ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ تبدیلی کیا ہوتی ہے؟ اور تبدیلی کیسے آتی ہے؟ سب لوگ تبدیلی کے لفظ سے واقف تو ہیں مگر تبدیلی کیا ہے، اس کا کسی کو کچھ پتا نہیں۔

انتہائی معذرت کے ساتھ دوستو! بحیثیت قوم ہم ہمیشہ تبدیلی دوسروں میں دیکھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اس طرح کبھی تبدیلی نہیں آسکتی، تبدیلی ایک ہی صورت میں آسکتی ہے؛ اور وہ یہ کہ آپ خود کو سب سے پہلے تبدیل کیجیے، سب سے پہلے اپنا محاسبہ خود کیجیے اور جب آپ اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگیں تو اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوجائے گی۔ جب آپ لوگ خود تبدیل نہیں ہوں گے، آپ کے کردار اور قول و فعل سے تبدیلی نظر نہیں آئے گی تو آپ معاشرے میں کبھی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ تبدیلی جب بھی آئی ہے اخلاق و کردار کی وجہ سے آئی ہے۔

بد اخلاقی، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے سے آپ دشمن تو پیدا کر سکتے ہیں، دوست کسی کو نہیں بناسکتے۔ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ سب لوگوں کو اپنے اندر برداشت پیدا کرنا ہوگی؛ اپنوں کی تلخ بات سن کر مسکرانا ہوگا، تب کہیں جاکر دوسرے کو احساس ہوگا کہ میں نے غلطی کی ہے اور تب دوسرے کے رویّے میں تبدیلی آئے گی۔ اس عمل سے آپ ایک فرد میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگئے تو اس طرح تبدیلی کا ایک سلسلہ چل نکلے گا۔ جب آپ گالی کا جواب گالی سے دیں گے اور خواہش یہ کریں گے کہ دوسرا آپ کو برداشت کرجائے تو پھر تبدیلی نہیں آئے گی، پھر تو انتشار ہی آئے گا۔

ہمارے علاقو ں میں برادری سسٹم ہے۔ آج کل ہم اپنے بھائیوں اور برادریوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا کوئی قریبی بیمار ہو یا تنگ دستی کا شکار ہو تو ہم اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتے مگر جب ہماراکوئی عزیز مرجاتا ہے تو اس وقت ہم سب سے زیادہ روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو بھوک، پیاس اور تنگ دستی کی وجہ سے مرگیا ہم اس کی فوتگی پر کھانے بنانے کیلئے سب سے آگے ہوتے ہیں۔ کاش ہم نے اسے اس کی زندگی میں کھانا دیا ہوتا، اس کے غم میں شریک ہوئے ہوتے تو شاید وہ زندگی کے دن سکون سے گزار سکتا۔ ہمیں اب تبدیلی لانا ہوگی، اب ہمیں زندہ لوگوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اب کھانا کھلانے کیلئے کسی کے مرنے کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔

جب تک ہم زندوں کی قدر نہیں کریں گے، اس وقت تک تبدیلی نہیں آئے گی۔ برائے مہر بانی زندوں کی قدر کیجیے، لاشوں کو ہمدردی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں دکھ، دھوکا، اذیت اور تکلیف دوسروں کو دے کر معافی اللہ سے مانگی جاتی ہے۔ جس کو تکلیف دی ہے، اس سے معافی جب تک ہم نہیں مانگیں گے اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں۔

لوکی ہو گے من دے کنگلے
خالی رہ گے اُچے بنگلے

جیوندیاں نفس نوں پائے نہ سنگلے
مویاں قبراں نوں لائے جنگلے

میرے دوستو! جہاں پر ہم اہل علم، دانشور اور با ہمت قوم ہیں، انتہائی معذرت کے ساتھ، وہاں پر ہم لاپروا، خود غرض اور بے حس قوم بھی ہیں۔ ہم اصل حقیقت کو جانے بغیر اپنے پاس سے نتائج اخذ کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں برداشت کی انتہائی کمی ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہم سب کو سب سے پہلے اپنی اپنی خامیوں پر قابو پانا ہوگا، تب جاکر تبدیلی ممکن ہوسکے گی۔ اگر ہم اپنے گھر کا گند اٹھا کر دوسرے کے گھر کے سامنے پھینکتے رہیں گے تو پھر کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہمیں اپنے گھر کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گلی اور محلے کی صفائی کا بھی ذمہ اٹھانا ہوگا، تب جاکر تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔

کسی غیبی مدد پر امید رکھنے کے بجائے ہمیں اپنی گلی محلے کے لوگوں کی خود مدد کرنا ہوگی۔ آپ کے گھر کے ساتھ کسی غیر مسلم کا گھر ہے تو یہ اس بندے اور اللہ تعالی کا معاملہ ہے۔ اگر وہ بھوک سے مرجاتا ہے تو کل قیامت والے دن اس کا حساب آپ کو دینا ہوگا۔

اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر برداشت پیدا کرنا ہوگی۔ ہم معاشرتی طور پر عدم برداشت کا شکار قوم ہیں۔ عدم برداشت کی یہ انتہا ہے کہ نہ ہم کسی کی ماں کی عزت کرتے ہیں اور نہ کسی کی بہن کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو عزت دینا ہوگی تب جا کر ہمیں عزت دی جائے گی۔ اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کوئی ہمیں عزت دے اور ہم کسی کی بھی عزت نہ کریں تو یقین جانیے کہ پھر خود ہمیں کبھی عزت نہیں مل پائے گی۔

ایک علاقے سے ایک ایم این اے اور ایک ایم پی اے جیت کر قومی اسمبلی میں اور صوبائی اسمبلی میں جائے گا۔ اگر آپ لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ ایم این اے اور ایم پی اے آپ لوگوں کی ہر ذمہ داری اٹھا لیں گے اور آپ بڑے سکون کے ساتھ سوکر اپنی زندگی بسر کریں گے تو یاد رکھیے کہ ان لوگوں پر اور بھی بہت سی ذمہ داریاں ہوں گی۔ جب تک آپ لوگ خود اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کریں، جب تک آپ لوگ خود اپنی آواز اپنے ایم این اے اور ایم پی اے تک نہیں پہنچائیں گے، اس وقت تک یہ لوگ بھی آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔

جب آپ لوگ ان منتخب نمائندوں سے اپنا حق مانگیں گے تب یہ آپ لوگوں کو حق دیں گے۔ اس ملک کی جو حالت ہے اس میں صرف سیاستدان نہیں ہم عوام بھی برابر کے شریک ہیں۔ تو دوستو! آپ کو خود اپنی حالت بدلنی ہے، یہ لوگ آپ کے معاون و رہبر ضرور ہوں گے مگر ان تک اپنی آواز کو پہنچانا آپ کا کام ہے۔ اگر آپ اپنی آواز اپنے منتخب نمائندوں تک نہیں پہنچاسکتے تو پھر کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔

ووٹ آپ کے ضمیر کی آواز ہے، آپ اپنے ضمیر کی آواز سنیے۔ ووٹ ایک پرچی نہیں بلکہ یہ آپ اور آپ کے علاقے کی قسمت کا فیصلہ ہے۔ ایسے لوگوں کو منتخب کیجیے جو آپ کی اچھی طرح نمائندگی کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

طاہر فاروق طاہر

طاہر فاروق طاہر

بلاگر نے اپنا تعلیمی سفر مکمل کرنے کے بعد اپنے بچپن کے شوق، لکھنے کے شوق کی تسکین کیلئے قلم کاری کا سفر جاری رکھا۔ آپ بلاگز کے ساتھ ساتھ مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں اور افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔