محافظ بدلیے جناب!

ڈاکٹر عثمان کاظمی  پير 23 جولائی 2018
جب بھی اس پیارے گھر پاکستان کے نگہبان چننے کی باری آئی، ہم نے غفلت برتی اور نااہل ترین محافظوں کو چنتے چلے گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب بھی اس پیارے گھر پاکستان کے نگہبان چننے کی باری آئی، ہم نے غفلت برتی اور نااہل ترین محافظوں کو چنتے چلے گئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک صاحب خاصے عرصے بعد اپنے گاؤں پہنچے، راستے میں ہی انہیں اپنا نوکر مل گیا۔
نوکر سے انہوں نے اپنے گھر کے حالات پوچھے تو نوکر بولا:
باقی سب تو خیریت ہے، بس آپ کا کتا مرگیا ہے۔
وہ صاحب بولے میرا کتا مرگیا ہے مگر کیسے؟
جناب وہ آپ کے مرے ہوئے گھوڑے کا گوشت کھا کر کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔
تو میرا گھوڑا بھی مرگیا!
بھوک سے مرگیا جناب بھوک سے۔
مگر میں تو تمہیں اس کے راشن کےلیے پیسے دے کر گیا تھا، وہ کہاں گئے؟
وہ تو آپ کی والدہ کے کفن پر لگ گئے
تو کیا میری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے؟
جی ہاں وہ دو ماہ کے پوتے کا غم کیسے برداشت کرتیں!
ہائے الله! تو کیا میرا بچہ بھی مرگیا ہے؟
جی ہاں صاحب، ماں کے بغیر بھلا بچہ کیسے زندہ رہتا!
تو میری بیوی بھی چل بسی؟
جناب گھر کی چھت گری تھی وہ کیسے بچتی؟
اف خدایا! کچھ بچا بھی ہے؟
جی ہاں میں بچا ہوں اور صحیح سالم آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔

آج ایسے ہی اپنی پرانی ڈائری کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب یہ لطیفہ نظر سے گزرا تو میں چونک کر رہ گیا۔ یہ لطیفہ، یہ کہانی مجھے اپنی اپنی سی لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے اس میں میرے ہی وطن عزیز کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ میں نے نوکر کی جگہ گزشتہ کچھ حکمرانوں کے نام ڈال کر اس کہانی کو دوبارہ پڑھا تو مجھے یہ کہانی حقیقت لگنے لگی۔

ملک ڈوبتا رہا، کرپشن ہوتی رہی، بے روزگاری بڑھتی رہی، بھوک سے لوگ مرتے رہے، ڈالر اونچی اڑان بھرتا رہا، سسٹم مفلوج ہوتا رہا، ایک ایک کرکے تمام ادارے ناکارہ ہوتے گئے لیکن نہ ہی ان حکمرانوں کی شان و شوکت میں کچھ کمی آئی اور نہ ہی ان کے کاروبار متاثر ہوئے۔ یہ صحیح سالم رہے اور ملکی وسائل کو ڈکارتے رہے۔ ملک غریب ہوتا رہا اور یہ امیر ہوتے گئے۔ نہ انہیں اس گھر کے مکینوں سے کچھ دلچسپی تھی اور نہ ہی اس گھر کے در و دیوار سے۔ اگر کسی چیز سے دلچسپی تھی تو وہ تھے صرف ان کے ذاتی مفادات جو بڑی عمدگی سے یہ حاصل کرتے رہے۔

حکمرانوں کے انتخاب میں ہمیں کم از کم وہ معیار تو رکھنا چاہیے جو ہم گھر کے ایک اچھے چوکیدار یا سیکیورٹی گارڈ کو منتخب کرتے وقت رکھتے ہیں۔ مثلاً ایک اچھا چوکیدار اسے سمجھا جاتا ہے جو دیانت دار ہو، ہر وقت چوکنّا رہتا ہو، اگر آپ کی جان کو کچھ خطرہ ہو تو وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ کی حفاظت کرنا جانتا ہو، آپ کے مال کی ٹھیک سے نگرانی کرنا جانتا ہو، آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر کی کوئی چیز استعمال نہ کرتا ہو، آپ کے وسائل کو ضائع ہونے سے بچاتا ہو جیسے کہ اضافی لائٹس بجھا دیتا ہو، اگر پانی کا نل کھلا دیکھے تو اسے بند کر دیتا ہو۔ گھر کی کوئی چیز اگر خراب ہوجائے تو بروقت اس کی نشاندہی کر دیتا ہو۔ یہ کم سے کم معیار ہے جو ہم ایک چوکیدار کو منتخب کرتے وقت اپناتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر وہ چوکیدار پڑھا لکھا ہو تو سونے پہ سہاگہ تصور ہوگا اور اگر دیندار بھی ہو تو یہ آپ کی خوش نصیبی ہوگی۔

ایک کالونی کا محافظ چننا ہو تو معیار کچھ اور بڑھ جاتا ہے، اسی طرح شہر کے محافظ کےلیے شرائط کچھ اور کڑی ہوجاتی ہیں لیکن جب بھی اس پیارے گھر پاکستان کے نگہبان چننے کی باری آئی، ہم نے غفلت برتی اور نااہل ترین محافظوں کو چنتے چلے گئے جنہیں اس گھر کی حفاظت کا کوئی احساس نہ تھا۔ ہم بار بار دھوکا کھاتے رہے۔ ہم اس گھر کے تحفظ کی ذمہ داری ایسے ملازموں کو سونپتے گئے جو اپنی آنکھوں سے اس گھر کی تباہی اور بربادی کا منظر دیکھتے رہے لیکن خود بالکل محفوظ رہے۔

الیکشن میں چند دن باقی ہیں۔ اس بار اپنے قیمتی ووٹ کی امانت کسی ایسے نگہبان کو سونپ دیجیے جسے اس پیارے گھر پاکستان کی حفاظت کا احساس ہو، جو اس ذمہ داری کو نباہنے کی اہلیت رکھتا ہو، جس کی وفاداریاں مفادات کے ساتھ نہیں بلکہ گھر کے ساتھ ہوں، جو اس گھر کی دیواروں اور چھتوں کو مضبوط رکھنے کے جتن کرسکے، جو کرپٹ نہ ہو، جو دیانت دار ہو، جو ملک و قوم کےلیے مخلص ہو، جو انصاف پسند ہو، جو عالمی معاملات پر گہری نظر رکھتا ہو، جو اپنے وطن کےلیے دنیا کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو اداروں کو درست کرنے کی بات کرتا ہو، جو کشمیر کے مؤقف پر دو ٹوک رویہ رکھتا ہو، جو ایک تعلیمی نظام کی بات کرتا ہو اور جو غربت اور جہالت کے اندھیروں کو مٹانا چاہتا ہو۔

عمران خان کی تمام تر خامیوں کے باوجود ان میں یہ تمام خوبیاں نظر آتی ہیں جو ان کو باقی رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اگر کسی رہنما میں یہ سب خوبیاں موجود ہوں تو اس شخص کی ذاتی زندگی کی خامیوں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص کے ارد گرد الیکٹیبلز کا جھرمٹ ہے۔ وہ نان الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے کر بھی قوم کا ردعمل دیکھ چکے ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی خان صاحب کو بھی وہی کرنا چاہیے جو مہاتیر محمد نے کیا تھا۔

مہاتیر محمّد کے اردگرد بھی کرپٹ وزراء کا جھرمٹ تھا، چونکہ وہ خود کرپٹ نہیں تھے اس لیے اقتدار میں آتے ہی انہوں نے قانون سازی کے ذریعے سب کرپٹ وزراء کو کیفرِ کردار تک پہنچادیا۔ اس کی تفصیل ان کی خود نوشت ’’اے ڈاکٹر ان دی ہاؤس‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خان صاحب کو آئندہ الیکشن سے پہلے الیکٹرونک ووٹنگ سسٹم بھی متعارف کروادینا چاہیے جس کا مطالبہ خود خان صاحب کرتے رہے ہیں تاکہ دھاندلی کے الزامات ہمیشہ کےلیے ختم ہوجائیں۔ تیسرا اہم کام یہ کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے حوالے سے سخت قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ صرف وہ لوگ سامنے آئیں جو خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں، باقی جو صرف اقتدار کا مزہ چکھنا چاہتے ہوں وہ دور ہی رہیں۔

یہ سب کچھ تب ممکن ہوسکے گا جب آپ اپنا محافظ بدلیں گے۔ ایک بار گھر کا محافظ بدل کر تو دیکھیے، آپ ہی کے ایک ووٹ سے فرق پڑے گا۔ یاد رکھیے یہ دراصل آپ کا ہی ایک ووٹ ہے جو میرِ کاراوں کے انتخاب کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ اگر ہم درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارا یہی گھر ایک شاندار بن جائے گا… ایک ایسا پاکستان جہاں نہ کرپشن ہوگی اور نہ بدامنی، جہاں لوگوں کی جان محفوظ ہوگی، جہاں لوگوں کا مال محفوظ ہوگا، جہاں قانون کی حکمرانی ہوگی، جہاں تعلیم عام ہوگی؛ اور ہمارا یہ وطن عزیز ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نقشہ پیش کرے گا۔

لیکن اگر، خدانخواستہ، اس بار بھی ہم نے محافظ کے انتخاب میں وہی غلطی دوہرائی جو برسوں سے دوہراتے چلے آرہے ہیں تو پھر ہمارے پاس اس گھر کی تباہی پر رونے اور واویلا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر عثمان کاظمی

ڈاکٹر عثمان کاظمی

بلاگر کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آج کل چین سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کررہے ہیں۔ ماحولیات، تعلیم اور حالات حاضرہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔