پنڈی اسلام آباد میں ن لیگ اور تحریک میں زبردست ٹکراؤ

غلام محی الدین  ہفتہ 11 مئ 2013
جڑواں شہروں میں قومی اسمبلی کے کل نو حلقوں میں ایک سو سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں. فوٹو : فائل

جڑواں شہروں میں قومی اسمبلی کے کل نو حلقوں میں ایک سو سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں. فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  جڑواں شہروں میں قومی اسمبلی کے کل نو حلقوں میں ایک سو سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں، نتیجہ کیا نکلے گا؟ نہیں معلوم لیکن واضح ہے کہ یہاں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف میں ہی ہے، دونوں انیس بیس کے فرق سے ہیں، ’’بیس‘‘ کون ہے؟ آج رات تک آثار دکھائی دے جائیں گے۔ محتاط رائے کے مطابق ن لیگ کو اب کے ٹف ٹائیم ملے گا۔

اب تک اسلام آباد کے حلقہ این اے 48 سے میاں اسلم، حلقہ این اے 49 سے مصطفی نواز کھوکھر، پنڈی کے این اے 50 میں شاہد خاقان،51 میں پرویز اشرف‘ 52 چوہدری نثار ‘ 53 میں سرور خان، 54 میں راجہ بشارت جب کہ 55 میں شیخ رشید اور 56 میں عمران خان کھڑے ہیں۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ 9 مئی کی رات پی ٹی آئی کے آخری جلسے میں ’’شو آف پاور‘‘ بہ ہرحال زبردست رہا جب کہ میاں اسلم این اے 48 میں اپنی مقبولیت کے حوالے سے لیڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

این اے 48 اسلام آباد ۔ ون
این اے ۔ 48 میں انجم عقیل خان پر بدعنوانی کے الزامات اور سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد جماعت اسلامی کے میاں محمد اسلم کی پوزیشن خاصی بہتر دکھائی دیتی ہے، دوسری پوزیشن پر کچھ کے قریب پی پی پی کے فیصل سخی بٹ اور بعض کے خیال میں مخدوم جاوید ہاشمی آتے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی گولڑہ شریف کے گدی نشینوں کی جزوی حمایت حاصل کر چکے ہیں لیکن اِس حلقے کے دیہی علاقوں میں ن لیگ اور اقلیتی بستیوں میں پی پی پی کا ووٹ بنک بہتر ہے۔ یاد رہے کہ اس حلقے میں میاں اسلم نے اپنی الیکشن مہم اڑھائی سال قبل ہی شروع کر دی تھی، وہ حلقے کے لوگوں میں بہت گھلے ملے ہوئے ہیں، سیاسی مبصرین کے مطابق سال 2008 میں اگر جماعت اسلامی الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتی تو ن لیگ کے انجم عقیل خان کی شکست یقینی تھی۔

این اے 49 اسلام آباد ۔ ٹو
این اے 49 میں بھی صورت حال حلقہ این اے 48 سے مختلف نہیں۔ اس حلقے کے مکین مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم این اے اور موجودہ امیدوار ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی فتح کو کورال چوک میں نواز شریف پر قاتلانہ حملے سے پیدا ہونے والی ہم دردی سے تعبیر کرتے ہیں۔ حلقے کے ووٹرز برملا کہتے ہیں کہ اگر یہ حملہ نہ ہوتا تو یہ مقابلہ سال 2008 میں پیپلز پارٹی کے نیر بخاری اور ق لیگ کے امیدوار مصطفی نواز کھوکھر کے درمیان تھا لیکن اب صورت حال یکسر مختلف ہے۔

مصطفی نواز کھوکھر اِس وقت پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں، انہیں ٹکٹ پی پی پی پی نے دیا ہے لیکن ان کو چوہدری برادران کی کمک بھی حاصل ہے جب کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ نیر بخاری کا ووٹ بینک بھی اچھا ہے، ان کی حمایت بھی مصطفی نواز کھوکھر کے حق میں جائے گی لیکن اِس کے باوجود ان کو جماعت اسلامی کے زبیر فاروق اور تحریک انصاف کے الیاس مہربان کے مضبوط پنچ بھی لگیں گے۔ حلقے کے ووٹروں کا خیال ہے کہ این اے49 سے عمران خان، راول پنڈی کے بجائے اس حلقہ سے خود امیدوار ہوتے تو مقابلہ یک طرفہ ہو سکتا تھا۔ این اے 49 میں ن لیگ کو چاہیے تھا کہ ناراض ووٹروں پر زیادہ توجہ دیتی، جو گزشتہ 5 سال میں حلقے کے اندر ترقیاتی کاموں اور اپنے ایم این اے کی عدم دست یابی پر برہم ہیں۔

این اے۔ 51 راول پنڈی
ماضی میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار راجا پرویز اشرف نے کام یابی حاصل کی تھی اور وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے چالیس ارب سے زیادہ کے ترقیاتی فنڈز یہاں کے لیے مختص کیے جو متنازع بن گئے۔ اس حلقے میں گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے چودھری محمد ریاض نے انتہائی کم زور اور غیر مقبول امیدوار ہونے کے باوجود 56 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے تھے اور مسلم لیگ (ق) کے راجا جاوید اخلاص نے 72 ہزار ووٹ لیے تھے، اب وہ مسلم لیگ نواز میں ہیں جس سے مسلم لیگ کے ووٹوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

ایک بات قابلِ توجہ یہ کہ چودھری ریاض اور راجا اخلاص جاوید دونوں ہی اس حلقے سے قومی اسمبلی کے لیے امیدواری کے خواہش مند تھے مگر قرعۂ فال راجا اخلاص کے نام نکلا۔ راجا پرویزاشرف کے لیے یہاں سے جیتنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد اس حلقے میں ہر وارڈ کی سطح پر پچاس لاکھ اور یونین کونسل کی سطح پر پانچ کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اربوں روپے کے فنڈز جاری کیے، سوئی گیس کی فراہمی کا منصوبہ بھی شروع کیا تھا، ممکن ہے وہ منصوبے ان کے کام آ جائیں ۔

پیپلزپارٹی کی اتحادی ق لیگ نے یہاں سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا، جماعت اسلامی نے اس حلقہ میں سابق ایم این اے راجا محمد ظہیر کے صاحب زادے راجا محمد جواد کو نام زد کیا ہے اور تحریک انصاف کی جانب سے چودھری عظیم امیدوار ہیں مگر حلقہ میں اصل مقابلہ راجا پرویزاشرف اور مسلم لیگ نواز کے نام زد امیدوار کے درمیان ہی ہوگا۔

این اے۔53 راول پنڈی

اس حلقے میں آج دل چسپ انتخابی دنگل سجے گا کیوں کہ یہاں اس بار دو روایتی حریف ایک دوسرے کے سامنے ہیں، مسلم لیگ نواز کے چودھری نثار علی خان اور تحریکِ انصاف کے غلام سرور خان۔ چودھری نثار اس حلقہ سے رکن قومی اسمبلی تھے۔ یہ حلقہ راول پنڈی ضلع کے علاقوں چکری اور ٹیکسلا پر مشتمل ہے۔ چکری میں ن لیگ کا زور ہے اور ٹیکسلا میں واہ فیکٹری کی وجہ سے پیپلزپارٹی نسبتاً بہتر ہے، پی پی پی کے امیدوار جسٹس(ر) انتخاب شاہ ہیں، جن کو ق لیگ کی حمایت حاصل ہے۔

این اے 55 راول پنڈی
راول پنڈی شہر کو سیاسی پنڈت ’’مِنی رائے ونڈ‘‘ کا نام دیتے ہیں کیوں کہ یہ شہر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے، اس میں شک نہیں کہ یہاں سے ن لیگ نے جس کو بھی ٹکٹ دیا اس نے مایوس نہیں کیا، واضح مثال شیخ رشید کی ہے، جو علاقے میں ایک بڑا ووٹ بینک رکھنے کے باوجود ن لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد ایک انتخابی نووارد سے ہار گئے تھے البتہ شیخ رشید نے 2002 کا انتخاب جب آزاد امید وار کی حیثیت سے لڑا تو جیت گئے تھے۔

این ا ے 55 وہی حلقہ ہے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیاتھا۔ آج راول پنڈی کے حلقہ این اے 55 کے انتخابی اکھاڑے میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے مابین ٹکر ہے۔ تحریک انصاف نے اس حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اور بنیادی طور پر عوامی مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف مشترکہ طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف صف آراء ہیں۔ سیاسی پنڈت اس امر پر متفق ہیں کہ آج اس حلقہ میں اصل مقابلہ ن لیگ کے شکیل اعوان اور شیخ رشید احمد کے درمیان ہے۔بظاہر شیخ رشید اس بار تحریک انصاف کی حمایت کے باعث بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اس حلقے پر ملک بھر کی نظر ہے۔

این اے56 راول پنڈی
اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی رکن قومی اسمبلی تھے۔ 2002 کے ضمنی انتخاب میں حنیف عباسی ایم ایم اے کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ 2008 میں وہ مسلم لیگ نواز میں شامل ہوئے اور الیکشن بھی جیتے۔ اس بار بھی وہ ن لیگ کی طرف سے عمران خان سے ٹکرا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابی مہم کے آغاز کے لیے راول پنڈی کا دورہ کیا تھا۔ انتخابی مہم کے آغاز کے لیے منعقدہ اس ریلی میں جہاں اہلیان راول پنڈی نے عمران خان کا بھرپور استقبال کیا، اس سے ان کے مخالفین کے کیمپ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی بہ ہر حال یہ حلقہ خاصا تپا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔