معیشت کو درپیش چیلنجز

ایڈیٹوریل  اتوار 22 جولائی 2018
قدرتی آفات اور سیلابوں سے ہونے والے ملک گیر نقصانات سے بچنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔ فوٹو: فائل

قدرتی آفات اور سیلابوں سے ہونے والے ملک گیر نقصانات سے بچنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔ فوٹو: فائل

25 جولائی کے اہم ترین انتخابات کے غیر معمولی نتائج سے قبل ایک چیلنجنگ پیشرفت نمایاں ہوئی ہے اور سنجیدہ اقتصادی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ الیکشن نتائج کیسے بھی مثبت و خوش آئند ہوں اور جو بھی حکومت برسر اقتدار آئے گی اسے اعصاب شکن اور صبر آزما معاشی صورتحال کا سامنا ہو گا، کیونکہ ملکی معاشی سفینہ کو مسائل و چیلنجوں کے گرداب سے نکالنے کے لیے تاریخ ساز اقتصادی عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

ملکی معیشت کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، حقائق سب کے سامنے ہیں۔ برسراقتدار کوئی بھی آئے، اسے بہرحال معاشی چیلنج کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ معاشی ذرائع کا کہنا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، وہ اور نگراں حکومت کے اقتصادی بزرجمہروں کو دھیرے دھیرے ملکی معیشت کی دگرگوں حالت کا اندازہ ہونے لگا ہے اور انہیں معاشی حقائق، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی دہشت، قرضوں کی بیساکھیوں پر کھڑی معیشت اور درآمدی بل کی مد میں بے پناہ قیمتی زرمبادلہ کی ادائیگی سے پیدا شدہ منظرنامہ نے بے چین کر دیا ہے، روپے کی ناقدری کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکا، میڈیا میں منی بجٹ لانے کی اطلاعات ہیں، کبھی کوئی خبر آ جاتی ہے، کبھی کوئی خبر آ جاتی ہے۔

کرنسی ڈیلرز کے ذرائع انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں معمولی استحکام کا ذکر کرتے ہیں جب کہ رواں سال پاکستان کی کرنسی کی فعالیت اور کارکردگی کسی بھی ایشیائی ملک کے مقابلہ میں اتنی خراب رہی کہ افغانستان کی کرنسی سے نیچے آگئی، بنگلہ دیش کی معیشت بھی قدرے مستحکم نظر آتی ہے، کرنسی ڈیلرز کے مطابق اگلے روز بھی ڈالر کی قیمت میں 30 پیسے کا اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 129.70 سے 130 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث معیشت کی پہلے سے دگرگوں حالت کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، ادھر پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں دو روز کی مسلسل نمایاں تیزی کے نتیجہ میں حصص کی قیمتیں منافع کے لیے پرکشش ہونے کی وجہ سے مندی کا رجحان رہا جس سے 41500 پوائنٹس کی حد گرگئی اور سرمایہ کاروں کے 93 ارب 7 کروڑ 82 لاکھ روپے ڈوب گئے، کاروباری ہفتے کے آخری روز کاروبار کا آغاز مثبت زون میں ہوا اور انڈیکس بڑھ کر 41816 پوائنٹس پر پہنچ گئے، جس سے تیزی کے اثرات زائل ہوگئے اور مندی چھاگئی، اس دوران سرمائے کا انخلا بڑھنے سے انڈیکس 41157 پوائنٹس تک گرگیا۔

ایک خبر کے مطابق امریکی ڈالر کے مقابل روپے کی بے قدری کے باعث خوراک و ٹیکسٹائل کی برآمد میں مالی سال 2017-18ء کے دوران ٹھوس ریکوری آئی، مگر عارضی ثابت ہوئی کیونکہ یہ توانائی، زرعی، ٹرانسپورٹ، اور دھاتوں کی درآمدات میں نمایاؒں اضافہ کے باعث دھندلا گئی۔ یاد رہے بلند درآمدات کی وجہ سے پاکستان کو ریکارڈ 37 ارب 64 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تجارتی خسارہ کا سامنا ہے، جو گزشتہ مالی سال 18 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کا سبب بنا، اسی خسارے کی وجہ سے بیرونی قرضے لینے پڑے۔

ہمارے کامرس رپورٹر کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملکی زرمبادلہ ذخائرکم ترین سطح پر ہیں جب کہ نگران وزارت خزانہ کے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کو یقینی سمجھا جا رہا ہے۔ اقتصادی ذرائع نے اس بات کا عندیہ بھی دیا ہے کہ درآمدی بل میں کمی لانے کے لیے اور برآمدات کی بہتری کے کے لیے تمام درآمدات پر ایک فیصد کسٹم یا 1550 اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگ سکتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ نگراں حکومت خود یہ فیصلہ نہ کر سکی تو نئی حکومت اس سمت میں پیش قدمی کر سکتی ہے، حکومتی فنانس ذرائع کے مطابق درآمدات کی حوصلہ شکنی اقتصادی استحکام اور ملکی برآمدات میں اضافہ کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ معاشی چیلنجز معمولی نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ خاصے گمبھیر نظر آ رہے ہیں جو ہمارے معاشی منیجرز کی ذہانت کا امتحان ہوں گے۔

دریں اثنا صدر ممنون حسین نے کاروباری برادری پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا بھر اور خاص طور پر خطے میں ابھرنے والے مواقع پر نظر رکھیں تاکہ ملک و قوم کی بہتری اور معاشی استحکام کے لیے ان سے استفادہ کیا جا سکے، جمعہ کو ایف پی سی سی آئی اچیومنٹ ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہماری تاجر اور صنعت کار برادری نے وطن عزیز کی اقتصادی ترقی کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے، صدر مملکت نے مزید کہا کہ ملک کی زرعی معیشت بالخصوص پولٹری، ڈیری اور لائیواسٹاک کے شعبہ میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، ملکی و غیرملکی سرمایہ کار اس شعبہ میں سرمایہ کاری کی بہترین اور لچکدار پالیسی سے استفادہ کرتے ہوئے دستیاب مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، وہ پاکستان پولٹری، ڈیری اور لائیو اسٹاک ایکسپو 2018ء کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر کے اس استدلال پر بھی فہمیدہ معاشی حلقوں کو سوچ بچار کرنا چاہیے جس میں انھوں نے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کے قیام کی تقریب سے خطاب کے دوران قدرتی آفات و سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کے تناظر میں بجٹ پر زبردست دباؤ کی بات کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ بجٹ ان آفات کے جھٹکوں کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، انھوں نے دیگر مالیاتی اداروں سے اس فنڈ میں سرمایہ کاری کی اپیل کی۔ ان کے بیان کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس فند کے لیے 20 کرور ڈالر فراہم کیے ہیں جب کہ آئندہ 12 سال میں مزید ایک ارب ڈالر بینک سے ملیں گے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے قدرتی آفات اور سیلابوں سے ہونے والے ملک گیر نقصانات سے بچنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔ بہرحال عام انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت برسراقتدار آئے گی اس کو کئی مسائل ورثے میں ملیں گے۔ ان مسائل میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سنبھالا دینا، مہنگائی کے گراف کو نیچے لانا، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرنا ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا چیلنج بھی اسے درپیش ہو گا۔ پانی کا بحران سر پر آیا ہوا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جو نئی حکومت آئے گی وہ ان چیلنجز سے کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔