اس سادگی پہ کون…

سردار قریشی  اتوار 22 جولائی 2018

میر بندہ علی خان تالپورکوئی معمولی آدمی نہیں تھے، ایک زمانہ تھا جب سندھ میں ان کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ بہت بڑے جاگیردار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انتہائی شریف اور نفیس انسان تھے۔ حصول تعلیم کی خاطر طویل عرصہ یورپ میں مقیم رہے، مغربی طرز زندگی کے دلدادہ وعادی تھے۔ اپنے وقت کے نامور سیاستدانوں میں شمار ہوتا تھا۔ 1843 میں سندھ پر قبضہ کرنے کے چار سال بعد انگریزوں نے 1847 میں اسے بمبئی صوبہ میں شامل کردیا۔

1936 میں سندھ نے بمبئی سے آزاد ہوکر اپنی خودمختار اسمبلی اور حکومت تشکیل دی جو 1947 تک قائم رہی۔ 14 اگست 1947 کو تقسیم ہند کے نتیجے میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو سندھ اس کا صوبہ بنا۔ میر صاحب 18 اپریل 1940 کو سندھ کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 7 مارچ 1941 تک اس عہدے پر فائز رہے (تب خودمختار سندھ حکومت کا سربراہ وزیراعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کہلاتا تھا)۔

سیاسی طور پر ان کی وابستگی آل انڈیا مسلم لیگ سے تھی۔ رعب و دبدبے کا عالم یہ تھا کہ عام لوگ آپس کے لڑائی جھگڑوں میں ایک دوسرے کو طعنہ دیتے کہ تو کون سا میر بندہ علی ہے۔ اتنا بڑا آدمی اندر سے کتنا سادہ اور معصوم تھا، آپ سنیں گے تو یقین نہیں کریں گے۔ ایک واقعہ جس کا میں خود چشم دید گواہ ہوں، آپ بھی سن لیجیے۔

میر صاحب نمازجمعہ کی ادائیگی کے لیے اپنے والد میر حاجی محمد حسن کے ساتھ حویلی سے پا پیادہ جامع مسجد آیا کرتے تھے جو زیادہ دور بھی نہیں تھی۔ ایک بار جب سخت گرمی پڑ رہی تھی، تپتی دھوپ میں مسجد پہنچے۔ صحن کے فرش پر قدم رکھتے ہی اچھل پڑے اور اگر پیچھے کھڑے ہوئے صوبیدار صادق سہارا نہ دیتے تو شایدگر پڑتے۔ فرش واقعی بہت گرم تھا اور تانبے کی طرح تپ رہا تھا لیکن درجنوں لوگ، جنھیں اندر جگہ نہیں مل سکی تھی، اسی فرش پر بچھی چٹائیوں پر بیٹھے نماز شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے۔

میر صاحب کے مسجد میں داخل ہونے کے لیے کئی ڈول پانی ڈال کر پہلے فرش کو ٹھنڈا کیا گیا پھر اس پر چٹائیاں بچھائی گئیں۔ یہ سب ہونے تک وہ باہر ہی کھڑے رہے، انھوں نے اشارے سے صوبیدار صادق کو پاس بلایا اور پوچھا کہ تم لوگ (پولیس والے) جب کسی ملزم سے تفتیش کرتے ہو تو اس سے سچ کس طرح اگلواتے ہو۔ اس نے کہا مارکٹائی سے۔ یہ سن کر بولے پاگل ہو، مارنے کی کیا ضرورت ہے، یہاں لاکرایک منٹ ننگے پاؤں فرش پر کھڑا کردو، دیکھو کیسے سچ اگلتا ہے۔

صوبیدار صادق نے تو احتراماً کوئی جواب نہیں دیا لیکن میر صاحب کے مسجد کے اندر تشریف لے جانے کے بعد وہاں کھڑے ایک کچھی مزدور سومار نے لقمہ دیا کہ ہاں، اگر ملزم میر بندہ علی خان ہوگا تو ضرور سچ اگل دے گا۔ کچھ میر صاحب ہی پر موقوف نہیں تھا۔ پہلے سبھی لوگ سادگی، عاجزی اور سادہ لوحی کا پیکر ہوا کرتے تھے۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ یہ صفات ان کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ وہ اکڑفوں، چالاکی اور تکبر سے کوسوں دور تھے اور اپنے سے کم حیثیت غریب لوگوں سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ بڑے میر، حاجی محمد حسن، حقہ (چلم) گڑگڑایا کرتے تھے۔

اپنے بنگلے کے بڑے کمرے کے بیچوں بیچ، جہاں وہ آگے پیچھے جھولنے والی آرام کرسی پر بیٹھا کرتے، پانی کی پیتل والی گول ٹنکی پر نصب ان کا گھومنے والا حقہ دھرا رہتا تھا جس کی لمبی سی پائپ نما نے (نڑ) فرش پر بیٹھے ہوئے ان کے مصاحبین اور سائلین میں گردش کرتی رہتی۔ میر صاحب بھی اسی نے سے منہ لگا کر کش لگایا کرتے جس سے عام لوگ دم مارا کرتے تھے۔ انھیں اس سے گھن نہیں آتی تھی۔ میں نے خود بارہا انھیں کش لگا کر نے پاس بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف بڑھاتے ہوئے دیکھا تھا۔

پیاس لگتی اور پانی مانگتے تو انھیں دالان میں گھڑمچی پر رکھے مٹکوں میں سے اسی برتن میں پیش کیا جاتا جس میں سب پیا کرتے تھے۔ انھیں کبھی ناک بھوں چڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ ان کے صاحبزادے میر بندہ علی خان البتہ اپنے اور عام لوگوں کے درمیان ایک فاصلہ رکھنے کے قائل تھے۔ ان کے طور طریقے اپنے والد سے قطعاً مختلف تھے جس کی وجہ ان کا مغربی طرز زندگی تھا۔

تب بڑے لوگوں میں سیاسی یا ذاتی دشمنیاں پالنے کا رواج بھی بہت کم اور نہ ہونے کے برابر تھا، دل صاف تھے، کسی سیکیورٹی اور محافظوں کے حصار کے بغیر ہر جگہ آتے جاتے اور سفر کرتے تھے۔ میر بندہ علی خان زیادہ ترکراچی میں رہتے تھے، اپنے شہر ٹنڈو غلام علی اورکراچی کے درمیان آنا جانا لگا رہتا تھا۔ شیورلیٹ کار میں بائی روڈ سفرکیا کرتے۔ ڈرائیور دادن کے سوا تیسرا بندہ ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ رات ہے یا دن، اس کی پروا نہیں کرتے تھے اور جب دل چاہتا چل پڑتے۔ ایک بار بڑے میر کی طرف سے عام دعوت کا اہتمام کیا گیا۔

پلاؤ کی دو دیگیں ہمارے اسکول میں بچوں کے لیے بھی بھجوائی گئی تھیں، پتہ چلا صاحبزادے آدھی رات کے قریب کراچی سے گھر پہنچے تھے اور شہر بھر کی یہ دعوت ان کے بخیریت پہنچنے کی خوشی میں کی گئی تھی۔ ان دنوں دراصل ایک ڈاکو میرو نظامانی کی پورے علاقے خصوصاً ٹنڈو غلام علی اور مضافات میں دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی آئے دن کی لوٹ مار کی وارداتوں کی وجہ سے صاحبان ثروت، خصوصاً ہندو سیٹھ اور سنارے گھروں میں دبکے رہتے تھے اورکہیں آنے جانے سے گریزکرتے تھے۔

دوسرے دن جب میر صاحب اپنے بنگلے پر روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے کسی خیر خواہ نے مشورہ دیا کہ ان حالات میں رات کے وقت سفر نہ کیا کریں۔ جواباً فرمایا میں نے آج تک کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، مجھے کوئی کیوں نقصان پہنچائے گا۔

یہ وہ سوچ تھی جس کے تحت لوگ پرسکون اور پرامن زندگی بسر کرتے تھے، نہ تو ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کرتے تھے نہ ہی ان پر ڈر یا خوف کے سائے منڈلا رہے ہوتے تھے۔ رئیس میر محمد بھی تالپور میر ہی تھے اور میر صاحبان کی حویلی سے ملحق گھر میں رہتے تھے، غریب ہونے کے باوجود انتہائی خوددار آدمی تھے۔ دو دو دن کے فاقے سے ہونا ان کے لیے معمول کی بات تھی، لیکن اگر واقفان حال میں کوئی کھانے کا پوچھتا توکہتے ابھی ابھی گھر سے کھا کر آرہا ہوں۔ انھیں کھانا کھلانے کے لیے اکثر زبردستی کرنی پڑتی تھی۔

اس قدر سادہ لوح تھے کہ صرف 16 میل کی مسافت پر ماتلی میں ریلوے اسٹیشن ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی ٹرین میں سفر نہیں کیا تھا۔ ایک بار کوئی اپنے کام سے انھیں حیدرآباد لے گیا۔ رش کی وجہ سے وہ خود تو جگہ گھیرنے کے لیے ٹرین میں سوار ہوگیا اور رئیس میر محمد کو ٹکٹ لینے بھیج دیا۔ یہ جوں ہی ٹکٹ گھر کی کھڑکی سے ہٹے، وہاں موجود ایک شخص کو، جو انھیں جانتا تھا، مذاق سوجھا۔

اس نے آگے بڑھ کر پوچھا کہاں جا رہے ہیں، بتانے پر پھر دریافت کیا ٹکٹ لے لیے، انھوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹکٹ دکھا دیے، جنھیں دیکھ کر وہ چیخا یہ تو زنانہ ٹکٹ ہیں، اس نے آپ کوکیسے دے دیے۔ وہ تو اتنا کہہ کر کھسک گیا، یہ واپس ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر پہنچے اور بابوکو بولے میں تجھے کیا عورت نظر آتا ہوں کہ تو نے مجھے زنانہ ٹکٹ تھما دیے۔ اس بیچارے کو انھیں سمجھانے میں خاصی مشکل پیش آئی کہ ٹکٹ زنانہ یا مردانہ نہیں ہوتے، کسی نے ان سے مذاق کیا ہے۔

حق گو اور بیباک ایسے تھے کہ محرم کے دنوں میں جب شہر کی بڑی امام بارگاہ میں علم کو نیا لباس پہنانے کے لیے اتارنے کی رسم ادا کی جا رہی تھی، سیکڑوں لوگ چار اطراف سے مضبوط رسوں کی مدد سے اسے آہستہ آہستہ بڑی مہارت سے ڈھیل دے کر اور اپنی جانب کھینچ کر اتار رہے تھے، نغاروں والے چبوترے پر کھڑے بڑے میر نے داد طلب نظروں سے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا اللہ کی قدرت ہے، دیکھو علم کتنے آرام سے اتر رہا ہے۔ رئیس میر محمد نے سنا تو ان سے رہا نہ گیا اور بولے اترے گا کیسے نہیں، سارے شہر کو جو آپ نے اس کام پر لگا رکھا ہے۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔