ایک حکایت

رئیس فاطمہ  اتوار 22 جولائی 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سکندر اعظم کی عالمگیری اور فتح مندی سے متاثر ہوکر ایک بادشاہ نے ازراہ دور اندیشی یہ طریقہ اختیار کیا کہ باوجود سکندر سے کہیں زیادہ لشکر اور فوج رکھنے کے بغیرکسی جنگ کے سکندر اعظم کی طرف صلح اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور پیش قدمی کی۔ سکندر نے اس کی بے شمار فوج کو دیکھ کر کہا کہ ’’اگر تو صلح کے لیے آیا ہے تو اس لشکر جرار اور فوج کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی، شاید کہ تیرے دل میں دغا ہو۔‘‘

بادشاہ نے جواب دیا ’’وفا شیوہ عاجزوں کا ہے۔ یہ میرا جزوی لشکر ہے جو دائیں اور بائیں میرے ہمراہ رہتا ہے اور اس لشکر اور فوج کو اس لیے ساتھ لایا ہوں تاکہ تو یہ نہ سمجھے کہ میں عاجزی سے تیری اطاعت قبول کرتا ہوں۔ کیونکہ تیرا اقبال بلند ہے۔ اس لیے میں تیری اطاعت قبول کرتا ہوں۔ سکندر نے یہ سن کر اس کو امان دی۔ اس بادشاہ نے تمام لشکرکو نہایت پر تکلف کھانا کھلایا اور ایک نہایت قیمتی منقش خیمے میں جس پر زردوزی کا کام ہوا تھا سکندر کو بٹھایا اور اس کے آگے خوان زریں میں بیش قیمت جواہرات، لعل، یاقوت، موتی، ہیرے اور زمرد بھر کر سکندر کے آگے رکھ دیا اور کہا کہ ’’کھائیے‘‘ سکندر نے کہا ’’ہیرے جواہرات انسان کی غذا نہیں‘‘ بادشاہ نے پوچھا ’’پھر آپ کیا کھاتے ہیں؟‘‘

سکندر نے کہا کہ ’’یہی روٹی جو عام لوگ کھاتے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے سخت تعجب سے کہا ’’کیا یہ روٹی تجھے اپنے ملک میں نہیں ملتی تھی؟ کس لیے ناحق اس قدر رنج و مصیبت برداشت کرتا ہے اور اپنے ساتھ بے شمار مخلوق خدا کو بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے؟ ‘‘

سکندر نے ایک آہ بھری اور بولا اس سفر میں مجھے جو نصیحت ملی وہ تمام دنیاوی رموز سے علاقے رکھتے ہیں۔ اس کے بعد سکندر اعظم واپس چلا گیا۔

اس حکایت کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ ہمارے وطن میں دولت جمع کرنے کی جو وبا پھیلی ہے اس میں کیسے کیسے تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ فلیٹ، زمینیں، بینک، پیٹرول پمپ، جاتی امرا کے محلات اور نہ جانے کیا کیا۔ خواہ چکن کا کاروبار ہو یا کوئلوں کا آج کے حکمرانوں کا نہ پیٹ بھرتا ہے نہ منہ کالا ہوتا ہے۔ دھڑلے سے بے ایمانیاں کی جا رہی ہیں، قوم کا پیسہ لوٹا جا رہا ہے، کرپشن کرپشن اور کرپشن۔ آیندہ بھی یہی ہوتا رہے گا ایک اور حکایت سنیے۔

کم ظرف شخص کو جب دولت مل جاتی ہے تو وہ غلط طریقوں ہی سے اسے خرچ کرتا ہے۔ خدا کا خوف یا بندوں کی شرم کوئی چیز اس کو بے راہ روی سے نہیں روک سکتی کیونکہ پانچ کیلیں اس کے جسم میں گڑھ جاتی ہیں ایک کیل تو اس کی گردن میں گڑ جاتی ہے جس سے وہ ہمیشہ اکڑ کر چلتا ہے اور گردن اونچی رکھتا ہے۔ دو کیلیں اس کی آنکھوں میں گڑ جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بھلائی اور برائی میں تمیز نہیں کر سکتا، نہ دیکھ سکتا ہے کہ برائی کہاں ہو رہی ہے۔ دو کیلیں اس کے کانوں میں گڑ جاتی ہیں جنکے باعث وہ کسی کی نہیں سنتا، کسی کی نصیحت پہ کان نہیں دھرتا۔ اور اندھا دھند جو جی میں آئے کرتا چلا جاتا ہے۔

آخر میں ایک کیل قدرت کی طرف سے ٹھونکا جاتا ہے جس کی سختی سے یہ پانچوں کیلیں فوراً باہر گر جاتی ہیں پھر اس کی گردن بھی جھک جاتی ہے آنکھوں سے سب کچھ دیکھتا بھی ہے لیکن پچھتاتا نہیں بلکہ ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور پھر کانوں میں لگی کیلیں بھی قدرت خود نکال دیتی ہے تاکہ راہ راست پر آجائے لیکن کم لوگ ایسا کرتے ہیں زیادہ تر ہٹ دھرمی پہ ڈٹے رہتے ہیں تا وقت یہ کہ قدرت خود اسے سبق نہ دے۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’دولت کی مستی سے پناہ مانگوکیونکہ یہ وہ لمبی مستی ہے جس کے نشے کو سوائے موت کے دوسری کوئی چیز نہیں اتار سکتی۔‘‘

ہمارے ہاں نمود و نمائش کی وبا عام ہے دوسروں کی حرص کرنا، ان سے آگے نکلنا انھیں نیچا دکھانا بڑی اچھی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے وہ بڑے لوگ جنھوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ وہ نمود و نمائش سے دور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ فیس بک کے مالک مارک زک برگ اور مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس بھی ان افراد میں شامل ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اصل خوشی دوسروں کی مدد کرنے سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے سے۔ وہ سب بے پناہ دولت رکھنے کے باوجود نمود و نمائش سے کوسوں دور ہیں۔

مارک زک برگ کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ تقریباً 70 ارب ڈالر کے مالک ہیں اور دنیا کے پانچویں امیر ترین شخص ہیں ان کے اثاثے اتنے ہیں کہ روز ایک نئی فراری گاڑی خرید سکتے ہیں لیکن وہ ایک سستی واکس ویگن چلاتے ہیں۔ اسی طرح جب انھوں نے شادی کی تو کسی منفرد جگہ کا انتخاب کرنے کے بجائے اپنے گھر کے احاطے کو ترجیح دی۔ بل گیٹس دنیا کے امیر ترین شخص ہونے کے باوجود ان کی کلائی پر صرف 10 ڈالر کی گھڑی بندھی ہوتی ہے۔ کفایت شعاری کے لیے وہ بہت مہنگے لباس پہننا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ اسی طرح علی بابا گروپ کے بانی و چیئرمین جیک ماچین بھی نمود و نمائش کے سخت مخالف ہیں میکسیکو کے کارلوس سلم بھی اپنی پرانی گاڑی خود ڈرائیوکرتے ہیں۔

انسانی فلاح و بہبود کے کام بھی عیسائیوں، یہودیوں، پارسیوں اور ہندوؤں نے کیے ہیں، پاکستان کا گنگا رام اسپتال ہو یا کراچی کا سوبھراج اسپتال، لاہورکا گلاب دیوی اسپتال ہو یا کراچی میں تقسیم کے بعد جانوروں کے پانی پینے کے ’’پیاؤ‘‘ جمشید نسروانجی نے بنوائے تھے۔ انھی کے زمانے میں جانوروں کا اسپتال بھی قائم ہوا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ ہم بڑے منافق لوگ ہیں، صرف خود پر مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں، لیکن فلاح و بہبود کے کاموں سے کوسوں دور۔ مذہبی جماعتیں ایران اور سعودی عرب سے فنڈز لیتی ہیں لیکن اس فنڈ سے نفرتیں بوئی جاتی ہیں کوئی اسپتال یا کالج نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔