بائیں بازو کی بروقت پہل کاری

زاہدہ حنا  اتوار 22 جولائی 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کچھ دنوں سے معصوم لوگوں کی لاشیں سڑکوں پر نہیں بچھی تھیں، بوڑھے باپ اپنے جھکے ہوئے شانوں پر جوان بیٹوں کے تابوت اٹھائے ہوئے نہیں نکلے تھے اور ہم خوش تھے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، جب ہی ملک میں امن چین ہے۔

ہمیں معلوم نہ تھا کہ مشورے ہو رہے ہیں آپس… مشورہ کرنے والوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی منصوبہ بندیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ وہ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ میاں صاحب اور ان کی بیٹی قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے کبھی پاکستان واپس نہیں آئینگے، ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے، جب انھیں معلوم ہوا کہ دونوں باپ بیٹی پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ وہ دونوں آئے اور اس قدر خطرناک مجرم تصور کیے گئے کہ انھیں ایک طیارے سے نکال کر دوسرے طیارے میں بٹھایا گیا اور اسلام آباد بھیج دیا گیا۔

اس بات کی پوری احتیاط کی گئی کہ ان کی جھلک بھی ان کا انتظار کرنے والوں کو نظر نہ آئے۔ اب وہ دونوں جیل میں ہیں اور جن کو اقتدار میں لانے کی خواہش ہے وہ دھوم دھڑکے سے ایک ایسے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جس کے انعقاد اور اس کے نتائج سے پہلے ہی شاندار پوسٹر لگ رہے ہیں جن میں ایک امیدوار کے ’’وزیراعظم‘‘ بننے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

یہ پوسٹر اور یہ دعویداری الیکشن کے ضابطوں اور قوانین سے کس قدر مطابقت رکھتی ہے اس بارے میں کچھ کہنا شاید کسی نہ کسی نوعیت کی توہین کے زمرے میں آتا ہو، اسی لیے لوگوں کی اکثریت خاموش ہے، ان کے سینے میں کیا لاوا پک رہا ہے اور انصاف کے اس ترازو کو وہ کن نگاہوں سے دیکھ رہی ہے، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ ایک ایسے نازک مرحلے میں بائیں بازو کی سیاسی تنظیمیں، رہنما اور کارکن یاد آتے ہیں جنکی ایک مضبوط طاقت ملک میں موجود ہوتی تو جمہوریت اس صورت حال سے دو چار نہ ہوتی۔

پاکستان وجود میں آیا تو یہ بات کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ یہاں لبرل، روشن خیال اور عوام دوست سیاست اور سیاستدانوں کو جینے نہیں دیا جائے گا، روز اول سے جمہوریت بھی ذبح کی گئی اور لبرل خیالات رکھنے والوں کو بھی برداشت نہ کرنے کے واضح اشارے دیے گئے۔ پاکستان میں جاگیرداروں اور زمینداروں کا طبقہ بالادست تھا، وہ بائیں بازو کی سیاست برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔

سندھ سے ایوب کھوڑو پنجاب سے ممدوٹ اور خیبر پختونخوا سے ڈاکٹر خان صاحب برطرف کر دیے گئے۔ یہ سب کچھ گورنر جنرل کے حکم پر ہوا، جب مین اسٹریم پالیٹکس کرنے والوں کا یہ حال تھا تو سوچنے کی بات ہے کہ بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ لوگوں کو کس کس طرح دیوار سے نہیں لگایا گیا ہو گا۔ ان جرائد و رسائل پر پابندی لگی جو بائیں بازو کے خیالات اور ادب کا پرچار کرتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کالعدم قرار دی گئیں۔ یکے بعد دیگرے بائیں بازو کے مختلف رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے۔

انھوں نے شدید صعوبتیں سہیں، ان میں سے کئی قتل کیے گئے اور کئی مفقود الخبر ہوئے۔ ٹریڈ یونین اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگی۔ یوں وہ لوگ جو ان انجمنوں سے تربیت پا کر سماج کو بدلنے میں رہنمائی کرتے تھے، ان کا راستہ روک دیا گیا۔ دریا کے سوتے خشک ہو جائیں تو زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں ہوا۔ وہ لوگ جو 60ء اور 70ء کی دہائی میں نعرے لگاتے تھے کون بچائے گا پاکستان، طلبہ، مزدور اور کسان، وہ مسلسل پسپا ہوئے۔ طلبہ جو کسی سماج کو بدلنے والے عناصر کا ہراول دستہ ہوتے ہیں، ان کی انجمنوں پر پابندی لگے اب دہائیاں گزر گئیں۔

ٹریڈ یونین جو مزدوروں کی راہ نما کا کام کرتی تھی، اس کا بھی خاتمہ بالخیر ہوا، 28 مارچ 1972ء کو زیب تن ٹیکسٹائل ملز کی تالہ بندی وہ نکتہ آغاز بن گئی جس نے مزدوروں کو بھٹو صاحب کی مزدور دوستی کا حقیقی رخ دکھا دیا۔ یہ وہ تالہ بندی تھی جس میں 2 لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا۔ مزدوروں کے اس اتحاد کے دوران کراچی کے مزدوروں پر جس طرح اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں، ملز ایریا کی زمین سرخ ہو گئی۔ متعدد مزدور ہلاک ہوئے، زخمی ہوئے اور ان کے دلوں سے اس خوش فہمی کا خاتمہ بالخیر ہوا کہ ان کے ووٹوں سے ایک مزدور دوست حکومت برسراقتدار آئی ہے۔

یہ وہ حالات تھے جنھوں نے بائیں بازو کی سیاست کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ بھٹو حکومت کے بعد جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی آمرانہ حکومتوں نے مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کے لیے زندگی تلخ سے تلخ تر کر دی۔ بڑے بڑے جاگیردار اور زمیندار جو سول اور غیر سول بیورو کریسی کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کر کے سیاست میں بھی سربر آوردہ ہو چکے تھے وہ ان پرانے نعروں کو کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ’ہم کھیت نہیں کھلیان نہیں‘ ساری دنیا مانگیں گے، یہ رومان پرور نعرے تھے اور ان کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ لوگ قابل ستایش ہیں جو پسپائی اور ہزیمت کے باوجود بائیں بازو کی سیاست سے جڑے رہے اور کسی نہ کسی طور غریب طبقات کے حقوق کی بات کرتے رہے۔

2008ء اور 2013ء میں مسلسل دو منتخب جمہوری حکومتوں کے وجود میں آنے کے بعد ہم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ جمہوریت کی ریل پٹری پر چڑھ گئی ہے اور اب یہ اسی طرح آگے سفر کرتی رہے گی۔ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ قوتیں جن کے مفادات ملک کے تمام ذرائع اور وسائل کی گہرائیوں تک اتر چکے ہیں، جو عوام کو ان کے جمہوری حقوق دینے کے بجائے، اپنی سرسبزی و شادابی کے لیے ہرحد سے گزر جانے پر تیار ہیں۔ اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، کے نام پر ایک ایسی بساط بچھائی گئی ہے جس میں ان عناصر کو کامیاب کرانے کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا جائے گا جس کے ذریعے سے آنے والوں کے چہروں پر جمہوریت کا مکھوٹا چڑھا کر انھیں اپنے زیر تسلط رکھا جا سکے۔

ایک ایسی معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے جو عوام کے جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتی ہو، یوں جمہوریت کا تماشہ بھی چلتا رہے اور اقتدار پر اصل قبضہ ان طبقات کا ہو جو 1954ء سے اپنے دست و بازو پھیلاتے چلے گئے، جنھوں نے اپنی بادلاستی برقرار رکھنے کے لیے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے، سپر ڈالنے اور ملک کو تقسیم کرنے کو ترجیح دی۔ چہ کنم کی اس صورت حال میں کم از کم میرے لیے اور دوسرے بہت سے جمہوریت پسندوں کے لیے عوامی لیفٹ فرنٹ، کا وجود میں آنا سوکھے دھانوں پانی پڑنے کے مترادف ہے۔

لاہور میں بائیں بازو کی نمائندگی کرنے والی لگ بھگ ایک درجن تنظیموں نے عوامی لیفٹ فرنٹ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا۔ 150 دانشوروں اور صحافیوں نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اتخابی عمل کو غیر منتخب قوتوں کے ہاتھوں اغوا کیا جا رہا ہے۔ سب کو یکساں مقابلے کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے کنگز پارٹیوں کو کھڑا کیا جا رہا ہے۔

ماضی میں انتخابات سے قبل کبھی ایسی دھاندلی نہیں کی گئی جس کا مظاہرہ آج کیا جا رہا ہے۔ کچھ جماعتوں کا منتقمانہ احتساب، مذہبی انتہا پسند، فرقہ پرست، اور ممنوعہ دہشتگرد تنظیموں کی انتخابی عمل میں بھرپور شرکت، میڈیا پر قدغن اور سنسرشپ اور آزاد صحافیوں اور سوشل میڈیا کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے واقعات، پولنگ سے قبل دھاندلی کی غمازی کرتے ہیں۔ انتخابات امراء، جاگیرداروں، ارب پتیوں کی روایتی ٹولیوں کا کھیل بن گئے ہیں اور کالے دھن کے باعث انتخابی نظام سے عوام کے انبوہ کثیر کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ خواتین، اقلیتوں، کچی آبادیوں کے رہائشیوں اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگوں کا انتخابی فہرستوں میں یا تو اندراج ہی نہیں ہوا یا پھر انھیں ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا ہے۔

آزاد مبصرین کی رائے میں یہ انتخابات ایک ڈھکوسلا بنتے دکھائی رہے ہیں۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ قائم رکھنے والی قوتیں عوام کے جائز طور پر منتخب نمائندوں کے لیے جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ عوام کی منشا سے خوفزدہ آمرانہ قوتیں، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد پہ راضی نہیں، جس کے باعث پاکستان ایک بڑے سیاسی مناقشے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان تمام غیر جمہوری، غیر آئینی اور عوام دشمن کارروائیوں اور سازشوں کے خلاف مزاحمت کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف عوام الناس اور جمہوری قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے سے ہو سکتی ہے تا کہ صاف ستھری جمہوریت کا قیام عمل میں لایا جا سکے جو عوام کے سماجی اور سیاسی حقوق کی محافظ ہو۔

اس فرنٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے اور مقتدر ادارے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں۔ عوامی لیفٹ فرنٹ نے جس درد مندی اور دل سوزی سے یہ باتیں کہی ہیں وہ ان گزرے ہوئے دنوں کی یاد دلاتی ہیں جب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور، ادیب، شاعر، صحافی، وکلا اور طلبہ سماج کو سنوارنے کا عزم رکھتے تھے اور اس کے لیے ہر ظلم کو سہنے، جان سے گزر جانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ یہ لوگ جو پاکستان میں جمہوری تحریک کا ہر اول دستہ ہوا کرتے تھے، وہ آج کہاں ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔