ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات 2018ء کے دلچسپ اعدادوشمار

رانا نسیم  اتوار 22 جولائی 2018
کتنے ووٹرز اور کون ہے امیدوار، بھاری اخراجات کے ساتھ کتنی جماعتیں ہیں برسرپیکار؟ فوٹو: ایکسپریس

کتنے ووٹرز اور کون ہے امیدوار، بھاری اخراجات کے ساتھ کتنی جماعتیں ہیں برسرپیکار؟ فوٹو: ایکسپریس

بلاشبہ عصر حاضر میں جمہوریت کو ایک مقبول ترین اور بہترین نظام حکومت قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ جمہوریت عوامی رائے کی حاکمیت کا نام ہے۔

جمہوریت انتقال اقتدار کا شفاف ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندگی کا ایک مکمل فلسفہ ہے، جو افراد کے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی، ثقافتی اور معاشی روابط کو نئے سرے سے استوار کرتا ہے۔ لہذا افراد کا جمہوریت کی طرف جھکائو محض اس کے سیاسی تصور کی بنا پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر اس طرز زندگی کا حصول ہے، جو انہیں جمہوریت مہیا کرتی ہے۔ وطن عزیز کی بات کی جائے تو اس کا شمار ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے، جسے اپنی پیدائش سے پہلے ہی جمہوریت کا تحفہ مل چکا تھا۔ اور شفاف انتخابات جمہوریت کا وہ لازمی خاصہ ہے، جس کے بغیر یہ طرز حکمرانی روح کے بغیر جسم کے مترادف ہے۔

اگرچہ اس خطے میں جمہوریت کی روح یعنی انتخابات کا سلسلہ تو 1936-37ء سے ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن پاکستان کے قیام سے صرف دو سال قبل دسمبر 1945ء میں جداگانہ بنیادوں پر ہندوستان کی مرکزی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جس میں مسلم لیگ نے تیس کی تیس مخصوص مسلم نشستیں پاکستان کے نام پر جیت لیں۔ قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں پہلی بار پنجاب اسمبلی، 1954ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی اور 1962ء میں قومی اسمبلی کے لئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا، تاہم ملک بھر میں پہلے عام انتخابات 1970ء میں منعقد ہوئے، بعدازاں 1977ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء، 2013ء میں ملک گیر جنرل الیکشن کروائے گئے۔

عددی اعتبار سے دیکھا جائے تو آمدہ الیکشن 2018ء ملک کے گیارہویں جنرل الیکشن ہیں، جن کا جادو آج کل سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ان انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوںکی کل 849 نشستوں پر 11ہزار 855 امیدواروں کے درمیان جنگ کا طبل بج چکا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ملک بھر میں 85 ہزار پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ہیں، جن کی تعداد گزشتہ عام انتخابات 2013ء میں 69 ہزار تھی۔ صوبائی سطح پر پولنگ سٹیشنز کی تقسیم کچھ یوں کی گئی ہے کہ پنجاب میں 141 قومی اور 297 صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لئے 47ہزار 473، سندھ کی 61 قومی اور 130 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 13ہزار405، کے پی کے کی 51 قومی اور 99 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 11ہزار سے زائد جبکہ بلوچستان کی 16 قومی اور 51 صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لئے 4ہزار 497 پولنگ سٹیشنز قائم کئے گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں کے لئے 750 پولنگ سٹیشنز قائم کئے گئے ہیں۔ دوسری طرف اگر سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے تو الیکشن ایکٹ 2017ء کے نفاذ سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 350 پارٹیاں رجسٹرڈ تھیں، تاہم نئے ایکٹ میں شامل ہونے والی اصلاحات کے بعد یہ تعداد 122 رہ چکی ہے، کیوں کہ سیاسی جماعت کے قیام کے لئے پائی جانے والی غیرسنجیدگی کو کافی حد تک اس ایکٹ کے نفاذ میں ختم کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے لئے 331 انتخابی نشانات بنائے، جن میں سے تمام پارٹیوں کو مجموعی طور پر 107نشانات الاٹ ہوئے جبکہ 224 کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

آمدہ جنرل الیکشن میں ملک بھر سے 3 لاکھ 82 ہزار پولیس افسر و اہلکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے۔ صوبائی سطح پر ان افسروں و اہلکاروں کی تعیناتیوں کا جائزہ لیا جائے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 2لاکھ 59ہزار، سندھ 42ہزار 849، بلوچستان 28 ہزار جبکہ خیبرپختونخوا میں 52ہزار پولیس افسر و اہلکار الیکشن ڈیوٹی دیں گے۔ اسی طرح پولیس کے ساتھ سکیورٹی کی ذمہ داری نبھانے کے لئے 3لاکھ 71ہزار388 فوجی بھی خدمات سرانجام دیں گے۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے الیکشن کے انعقاد کو پرامن بنانے کے لئے ملکی تاریخ میں یہ سب سے بڑی تعیناتی ہے، تاہم تناسب کے اعتبار سے اس تعداد کا موازنہ 1997ء کے الیکشن سے کیا جا سکتا ہے، جب 35ہزار پولنگ سٹیشنز کے لئے ایک لاکھ 92ہزار فوجی تعینات کئے گئے تھے، 1997ء کے انتخابات میں ایک پولنگ سٹیشن پر 5.5 جبکہ اس بار 4.37 فوجی ایک پولنگ سٹیشن پر ذمہ داریاں سرانجام دیں گے۔ تاہم فوج کی تعیناتی کے حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں جب دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آ چکا تھا، اس وقت فوجیوں کی تعیناتی کی ریشو 1.65 فی پولنگ سٹیشن تھی اور 2013ء میں یہ تناسب فی پولنگ سٹیشن 1.06 تھا۔ الیکشن 2018ء میں ہر پولنگ سٹیشن پر دو فوجی اندر جبکہ دو باہر ڈیوٹی دیں گے۔ بری فوج کے علاوہ اس بار 8 ہزار فوجی نیوی اور ائیر فورس سے بھی لئے جائیں گے۔ سکیورٹی کے انتظامات کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابات کے انعقاد کے لئے اس بار 7 لاکھ 35 ہزار کے قریب پولنگ سٹاف کی ضرورت ہے، جن میں کثیر تعداد اساتذہ کی ہے، تاہم اس بار شعبہ تعلیم کے ساتھ محکمہ زراعت، خوراک، ریونیو جیسے شعبوں سے بھی پولنگ سٹاف لیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پہلی بار پولنگ سٹاف کی کمی کے باعث پرائیویٹ بنکوں سے بھی عملہ فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے تمام تر تحفظات، بم دھماکوں، فائرنگ اور لڑائی جھگڑوں کے ساتھ جنرل الیکشن 2018ء کے لئے الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور صرف 2 روز بعد کروڑوں ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے آئندہ پانچ سال کے لئے چند افراد کو آئینی حق حکمرانی سونپنے جا رہے ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ یہ منتخب ہونے والے افراد آئندہ پانچ سال کے دوران عوام کے بھروسے پر کہاں تک اور کتنا پورا اترتے ہیں۔

کل ووٹرز 10 کروڑ 59لاکھ 55 ہزار 407، نوجوانوں کا حصہ تقریباً 44 فیصد، خواجہ سرائوں کے 1456 ووٹ، سوا دو کروڑ نوجوان پہلی بار حق رائے دہی استعمال کریں گے

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کی گئی حتمی فہرست کے مطابق وطن عزیز میں ووٹرز کی تعداد ساڑھے 10 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، یعنی عام انتخابات 2018ء میں اب 10 کروڑ 59لاکھ 55 ہزار 407 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے، جس میں مرد ووٹرز 5 کروڑ 92 لاکھ 24 ہزار 262 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 4 کروڑ 67 لاکھ 31 ہزار 145ہے۔ فیصد کے اعتبار سے پاکستان میں 55.9 مرد جبکہ 44.1 فیصد خواتین ووٹرز ہیں۔ ووٹرز کی حالیہ تعداد گزشتہ انتخابات کی نسبت تقریباً 23 فیصد زیادہ ہے، عام انتخابات 2013ء میں کل ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 61لاکھ 89 ہزار 835تھی، جس میں مرد ووٹرز 4 کروڑ 85 لاکھ 92 ہزار 492 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ75 لاکھ 97 ہزار 343 تھی۔ ووٹرز کی حتمی فہرست کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کل ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 6 لاکھ 72 ہزار 868 ہے، جن میں مرد ووٹرز 3 کروڑ 36 لاکھ 79 ہزار 992 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 69 لاکھ 92 ہزار 876 ہے۔ سندھ میں 2 کروڑ 23 لاکھ 91 ہزار 244 ووٹرز ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 24 لاکھ 36 ہزار 844 مرد جبکہ 99 لاکھ 54 ہزار 400 خواتین شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ووٹرز کی کل تعداد ایک کروڑ 53 لاکھ 16 ہزار 299 ہے، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 87 لاکھ 5 ہزار 831 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 66 لاکھ 10 ہزار 468 ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں مرد ووٹرز 24 لاکھ 86 ہزار 230 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 18 لاکھ 13 ہزار 264 ہے، جو مجموعی طور پر 42 لاکھ 99 ہزار 494 بنتی ہے۔ فاٹا میں ووٹرز کی کل تعداد 25 لاکھ 10 ہزار 154 ہے، جن میں مرد ووٹرز 15 لاکھ 7 ہزار 902 ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 2 ہزار 252 رجسٹرڈ ہے۔ ملک کے وفاقی دارالحکومت میںکل 7 لاکھ 65 ہزار 348 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جن میں مرد 4 لاکھ 7 ہزار 463 جبکہ 3 لاکھ 57 ہزار 885 خواتین شامل ہیں۔ اسی طرح ملک میں ایک لاکھ کے قریب خواجہ سراء ہیں، جن سے میں صرف 1456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔

ووٹرز کے حوالے سے ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ ووٹرز کی تعداد کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور آمدہ الیکشن میں کسی سیاسی پارٹی کو فتح دلوانے میں یہی نوجوان اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ اعدادو شمار کے مطابق ملک کے کل ووٹرز کا تقریباً 44 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی تعداد چار کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ (واضح رہے، اٹھارہ سے پینتیس سال کے ووٹر نئی نسل میں شمار کیے جاتے ہیں)درج بالا نوجوان ووٹروں میں سے ایک کروڑ چوہتر لاکھ ووٹر 18 سے 25 سال کے ہیں جبکہ دو کروڑ اناسی لاکھ 26 تا 35 سال کی عمر رکھتے ہیں۔ مزید برآں 36 سے 45 سال کے ووٹروں کی تعداد بھی دو کروڑ چوبیس لاکھ ہے۔ ان ووٹروں کو ’’جوان‘‘ کہا جاسکتا ہے۔گویا جنرل الیکشن 18ء میں چھ کروڑ ستاسی لاکھ نوجوان اور جوان ووٹر حصہ لیں گے۔ اس کے علاوہ اس بار دو کروڑ بیس لاکھ نوجوان الیکشن 18ء میں پہلی بار ووٹ ڈالنے کا اعزاز پائیں گے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ترقیاتی منصوبے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہرایک سو نوجوانوں میں سے 55صوبہ پنجاب،23صوبہ سندھ، 14صوبہ خیبر پختون خواہ، 4 صوبہ بلوچستان اور بقیہ نوجوان آزاد جموں کشیر،گلگت بلتستان و قبائلی علاقہ جات میں مقیم ہیں۔

ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات…قومی خزانے کو 21 ارب روپے کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے

عام انتخابات پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات کی بات کریں تو 2018ء کے عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہوںگے۔ ان انتخابات پر 21 ارب 29 کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ ہو گی، جو گزشتہ انتخابات کے اخراجات (6 ارب سے زائد) سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ اخراجات بڑھنے کی بڑی وجہ پولنگ سٹیشنز اورعملے کی تعداد میں اضافہ، سکیورٹی فیچر والے بیلٹ پیپرز کی چھپائی، لاجسٹکس ، سکیورٹی اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ مانیٹرنگ اور سکیورٹی کے لئے 30 کروڑ کی لاگت سے 80 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے خریدے جا رہے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد سمارٹ موبائل فون پولنگ عملہ کو فراہم کئے جائیں گے، جن پر ایک ارب روپے تک اخراجات آئیں گے۔ پولنگ سٹیشنز کی تعداد ستر ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے، جس کے باعث پولنگ عملے کی تعداد میں بھی دو لاکھ تک اضافہ ہوگا، پولنگ کے فرائض سرانجام دینے والے عملہ کے علاوہ پولنگ سٹیشنز پر سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے پاک فوج ، رینجرز اور ایف سی کے جوانوں کی بھی زیادہ تعداد درکار ہوگی۔ یوں الیکشن کمیشن کو انتخابات کی سکیورٹی پر پہلے سے کہیں زیادہ رقم خرچ کرنا ہو گی۔ نئی حلقہ بندیوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم اور رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کے لئے اربوں روپے درکار ہیں، الیکشن کمیشن ضلع کی سطح پر مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے گا، یہ ٹیمیں انتخابی قوانین اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے معاملات پرنظر رکھیں گی۔ انتخابی فہرستوں کی گھر گھر تصدیق کے عمل کو پہلے سے زیادہ موثر بنانے کیلئے بھی اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ عملے کے اعزازیہ میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اب پریذائیڈنگ افسر کو دو ہزار روپے کے بجائے 6 ہزار روپے، اسسٹنٹ پریذائڈنگ افسر کو ڈیڑھ ہزار روپے کے بجائے ساڑھے چار ہزارروپے ، پولنگ افسر کو ایک ہزار روپے کی بجائے 3 ہزار روپے جبکہ نائب قاصد کو 6 سو روپے کے بجائے دو ہزارروپے ادا کئے جائیں گے۔

الیکشن ایکٹ کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار انتخابی مہم پر تقریباً 31 ارب روپے خرچ کرنے کے مجاز

الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق 2013ء کے عام انتخابات میں امیدواروں کی جانب سے تقریباً 18 ارب روپے خرچ کئے گئے، تاہم غیرسرکاری طور پر یہ رقم کئی گنا زائد بتائی جاتی ہے، کیوں کہ بدقسمتی! سے وطن عزیز میں صرف ووٹر ہی نہیں بلکہ امیدواروں کی خریدوفروخت بھی ہوتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار کو اپنی انتخابی مہم پر 15 لاکھ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو 10لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت تھی۔ اُن انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر الیکشن لڑنے والے 4 ہزار 671 امیدواروں نے 7 ارب روپے جبکہ تمام صوبائی اسمبلیوں کی 577 نشستوں پر 10 ہزار 958 امیدواروں نے تقریباً 11 ارب روپے خرچہ کئے۔ دوسری طرف آمدہ عام انتخابات میں امیدواروں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اخراجات (الیکشن کمیشن کے قواعدو ضوابط کے مطابق) گزشتہ کی نسبت دو گنا سے بھی زائد ہوں گے، کیوں کہ 2017ء کے الیکشن ایکٹ کی رو سے اب قومی اسمبلی کا ہر امیدوار اپنی انتخابی مہم پر 15لاکھ روپے کے بجائے 40 لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کا ہر امیدوار 10 لاکھ کے بجائے 20لاکھ روپے تک انتخابات کیلئے خرچ کر سکتا ہے۔ اس بار قومی اسمبلی کیلئے ساڑھے 3 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلیوں کیلئے سوا 8 ہزار امیدوار انتخابی عمل میں سرگرداں ہیں، جو الیکشن کمیشن کی قواعد و ضوابط کے مطابق بھی انتخابی مہم پر خرچہ کریں تو قومی اسمبلی کے امیدواروں کا خرچہ تقریباً 14 ارب روپے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کا خرچہ پونے 17 ارب روپے بنتا ہے۔ اس کے علاوہ کاغذات نامزدگی کیلئے سکیورٹی فیس کی مد میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی نشست پر جہاں پہلے کاغذات نامزدگی کیلئے 4 ہزار روپے فیس مقرر تھی، اب وہ بڑھا کر 30ہزار روپے کر دی گئی ہے، اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست کے کاغذات نامزدگی کیلئے سکیورٹی فیس 2 ہزار روپے سے بڑھا کر 20ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

ووٹر کا پولنگ سٹیشن ایک کلومیٹر کے اندر، رات 2بجے تک جاری ہونیوالے لازمی عبوری نتیجہ کی تیاری میں امیدوار بھی شرکت کر سکے گا

وطن عزیز میں انتخابی اصلاحات کی بات کی جائے تو 1976ء کے بعد پہلی بار 2017ء میں نیا الیکشن ایکٹ نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت آمدہ انتخابات (25جولائی2018ء) منعقد کروائے جا رہے ہیں۔ اس نئے ایکٹ کے مطابق پولنگ سٹیشن اور ووٹر کے درمیان فاصلہ ایک کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوا کرے گا۔ بل کے ایکٹ بننے کے درمیانی مدت میں الیکشن کمیشن انتخابی قواعد تیار کرسکے گا۔ اْمیدوار انتخابی فہرستوں کی ہارڈ اور سافٹ کاپیاں، ووٹرز کی تصاویر فیس ادا کرکے لیں گے۔ سیاسی جماعت ایک لاکھ سے زائد عطیات دینے والوں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرایا کرے گی۔ دو ہزار سے کم ممبروں والی کسی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن نہیں ہوگی۔ نگران حکومت کے ارکان اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن کو جمع کروانے کے پابند ہوں گے۔ نگران حکومت کوئی بڑا پالیسی ساز فیصلہ نہیں کرسکے گی۔ انتخابی فہرستوں کے لئے نادرا قومی شناختی کارڈ نمبر کا سارا ڈیٹا الیکشن کمیشن کو فراہم کرے گا تاکہ ہر اس شہری جس نے قومی شاختی کارڈ حاصل کر رکھا ہے، وہ خودبخود نادرا میں دیئے گئے پتے کے مطابق ووٹر بن جائے۔ کسی بھی حلقہ میں خواتین کے ووٹ کل پڑنے والے ووٹوں کے 10 فیصد سے کم ہونے پر اس حلقے کا نتیجہ کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ نئے ایکٹ کے تحت اب عبوری نتیجہ تیار اور اس کا اعلان ہوگا۔ ہر دو امیدواروں کے درمیان ہار جیت کا تناسب 5 فیصد یا اس سے کم یا 10 ہزار ووٹ یا اس سے کم ہونے کی صورت میں لازمی طور پر گنتی دوبارہ کی جائے گی۔ ہر سیاسی پارٹی انتخابی عہدوں اور براہ راست نشستوں پر کم از کم 5 فیصد کوٹہ مخصوص کرے گی۔ امیدواروں کے اخراجات کے گوشواروں کی جانچ پڑتال کی شق کے مطابق ہر امیدوار ہر حلقے(جیسے ایک امیدوار ایک سے زائد حلقہ سے کھڑا ہوتا ہے)کے لئے الگ الگ بنک اکائونٹ کھلوائے گا اور الیکشن فیس سے لے کر انتخابی اخراجات تک اس اکائونٹ سے ادائیگی کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی توہین اب توہین عدالت ہوگی۔ الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے اختیارات حاصل ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ اب الیکشن کمیشن اپنے مالی معاملات میں خود مختار ہوگا۔ تقرر و تبادلے تنخواہ و اعزازیہ میں اضافہ یا کمی کرنے میں خود مختار ہے۔ نتائج کی تشکیل، ترسیل اور اجراء کا بھی طریقہ کار دے دیا گیا ہے اس میں خاص بات یہ ہے کہ عبوری نتیجہ کی تیاری میں بھی امیدوار خود بیٹھ سکتا ہے اور یہ کہ اب ہر حلقہ کا نتیجہ رات 2 بجے تک یقینی جاری ہوگا، جس کو ہارڈ کاپی کے ساتھ ویب سائٹ پر بھی جاری کیا جائے گا۔

قومی و صوبائی سطح پر سب سے بڑا اور چھوٹا حلقہ

وطن عزیز میں 18 سال بعد گزشتہ برس یعنی مارچ 2017میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں کی گئیں تو صوبہ خیبرپختونخوا کا ضلع بنوں قومی اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ (این اے 35) قرار پایا، جس کی آبادی 11 لاکھ 67 ہزار 892 ہے، تاہم اس حلقہ میں کل ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 78ہزار 872 ہے، جس میں سے مرد ووٹرز 3 لاکھ 28 ہزار 817 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 50 ہزار55 ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کا سب سے چھوٹا حلقہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ جھل مگسی ہے۔ این اے 262 کے نام سے حد بندی ہونے والے اس حلقہ کی آبادی 3 لاکھ 86 ہزار 255 ہے۔ یہاں 2 لاکھ 54ہزار 366 ووٹرز کی رجسٹریشن ہوئی ہے، جس میں سے مرد ووٹرز ایک لاکھ 45 ہزار 881 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 8 ہزار 485 ہے۔ صوبائی سطح پر حلقہ بندیوں کے بڑے چھوٹے ہونے کا ذکر کیا جائے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں این اے 87 حافظ آباد قومی اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ ہے، جس کی آبادی 11لاکھ 56 ہزار 957ہے، یہاں کل ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 84 ہزار 447 ہے، جس میں سے مرد ووٹرز 3لاکھ 84 ہزار 762 جبکہ 2لاکھ 99 ہزار 485خواتین ووٹرز ہیں۔ پنجاب میں سب سے چھوٹا حلقہ این اے 67 جہلم ہے، جس کی آبادی 5لاکھ 46ہزار 113ہے۔ یہاں ووٹرز کی کل تعداد 4لاکھ 4ہزار212 ہے، جس میں سے مرد 2لاکھ13ہزار765 جبکہ خواتین ایک لاکھ 90ہزار 447 ہے۔ سندھ میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا حلقہ این اے 197 کشمور ہے، جس کی آبادی 10لاکھ 89ہزار169ہے۔ یہاں 4لاکھ 54ہزار 542 ووٹرز ہے، جن میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 2لاکھ57ہزار760، ایک 96ہزار782 ہے۔ اسی طرح سب سے چھوٹا حلقہ این اے 199 شکارپور ہے، جس کی کل آبادی 5لاکھ 88ہزار 185ہے۔ یہاں کل ووٹرز 2لاکھ 91ہزار 564 ہے، جس میں سے مرد ایک لاکھ 57ہزار 327 اور خواتین ایک لاکھ 34ہزار 237ہیں۔ بلوچستان میں سب سے بڑا حلقہ این اے 268 مستونگ، چاغی، قلات، قلندرآباد اور نوشکی پر مشتمل ہے۔ اس حلقہ کی کل آبادی 10لاکھ 83ہزار497ہے، یہاں کل ووٹرز 2لاکھ 34ہزار 291ہے ، جس میں سے مرد ووٹرز ایک لاکھ 34ہزار 678 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 99ہزار 613 ہے۔ خیبرپختونخوا کا سب سے چھوٹا حلقہ این اے 37 ٹانک ہے، جس کی آبادی 3لاکھ 91ہزار 885ہے۔ یہاں کل ووٹ ایک لاکھ 80ہزار 872، جس میں سے مرد ووٹرز ایک لاکھ 3ہزار 498 جبکہ خواتین ووٹرز 77ہزار 374 ہے۔

کرنسی نوٹ اور اسٹام جیسا بیلٹ پیپر

الیکشن کمیشن کی جانب سے 2013ء کے عام انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے تمام تر ضروری اقدامات کئے گئے، تاہم اس کے باوجود دھاندلی کا غلغلہ گزشتہ پانچ سال چلتا رہا۔ عام انتخابات میں جن نقائص کا ذکر کیا گیا، ان میں ایک بیلٹ پیپر بھی شامل تھا، جس کے بارے میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ یہ مارکیٹ میں بھی دستیاب تھا، خصوصاً سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی شناخت نہ ہونے کی تصدیق نے اس معاملے کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ اس خامی پر قابو پانے کے لئے آمدہ الیکشن میں بیلٹ پیپر کو کرنسی اور اسٹام پیپر کی طرح محفوظ، قیمتی اور مکمل طور پر قابل بھروسہ بنانے کے لئے واٹرمارک پیپر کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں کئی سکیورٹی فیچرز شامل کئے جا رہے ہیں۔ انتخابی قانون 2017ء کے سیکشن 71کی ذیلی شق 4 کے مطابق الیکشن کمیشن پابند ہے کہ وہ واٹر مارک یعنی ایک خصوصی پیپر کو بطور بیلٹ پیپر استعمال کرے جو عام طور پر مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو۔ 2014ء میں بننے والی پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں بھی یہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ آئندہ انتخابات میں واٹر مارک پیپر استعمال کیا جائے گام جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے بھی موجود ہے۔ کرنسی اور اسٹام پیپر کی طرح واٹرمارک پیپر عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق واٹرمارک پیپر کے لئے کاغذ خصوصی طور پر فرانس سے منگوایا گیا ہے۔ واٹرپیپر کی خریداری اور اس پر چھپائی پر تقریباً سوا ارب روپے لاگت آئے گی۔

مخصوص سیٹوں کے علاوہ خواتین کیلئے 5فیصد جنرل نشستوں کی پابندی، 157 اقلیتی امیدوار میدان میں

الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 206 کی رو سے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی پارٹیاں مخصوص نشستوں کے ساتھ 5 فیصد جنرل نشستیں بھی خواتین کو دینے کی پابند بنائی گئی ہیں، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے بیشتر پارٹیوں نے مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی انتخابی سیاست کے میدان میں اتارا ہے۔ نئے قانون کے مطابق جنرل نشستوں پر آل پاکستان مسلم لیگ کے کل امیدواروں کی تعداد کی مناسبت سے خواتین کی 7 نشستیں بنتی ہیں تاہم اس جماعت نے 8 خواتین امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے، اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی نے الیکشن ایکٹ کے تحت 9 کے بجائے 14، بلوچستان عوامی پارٹی نے 3، بلوچستان عوامی پارٹی نے 2 کے بجائے 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے 5 کے بجائے 8، متحدہ مجلس عمل نے 30 کے بجائے 33، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے 4 کے بجائے 6، پاک سرزمین پارٹی نے 7 کے بجائے 12، پاکستان مسلم لیگ نے 2 کے بجائے 5، پاکستان مسلم لیگ نواز نے 32 کے بجائے 37، پاکستان پیپلزپارٹی نے 32 کے بجائے 43، پاکستان تحریک انصاف نے 38 کے بجائے 42 اور تحریک لبیک پاکستان نے 27 کے بجائے 33 خواتین کو انتخابی اکھاڑوں میں اتارا ہے۔ مجموعی طور پر 172 خواتین قومی اسمبلی جبکہ 386 صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں، جبکہ گزشتہ انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد 419 تھی۔ خواتین کے علاوہ اقلیتوں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر اس بار کل 157 غیر مسلم حصہ لے رہے ہیں، جن میں 44 قومی جبکہ 113 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے امیدوار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔