افغان نائب صدر رشید دوستم خودکش حملے میں بال بال بچ گئے، 10 افراد ہلاک

ویب ڈیسک  اتوار 22 جولائی 2018
عبدالرشید دوستم ترکی میں جلاوطنی ختم کر کے کابل ایئرپورٹ پہنچے جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا فوٹو:فائل

عبدالرشید دوستم ترکی میں جلاوطنی ختم کر کے کابل ایئرپورٹ پہنچے جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا فوٹو:فائل

کابل: نائب افغان صدر عبدالرشید دوستم پر کابل ایئرپورٹ پر خودکش حملہ ہوا جس میں 10 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے تاہم نائب صدر اس حملے میں محفوظ رہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے نائب صدر عبد الرشید دوستم ترکی میں جلا وطنی ترک کر کے آج حامد کرزئی ایئرپورٹ کابل پہنچے جہاں اعلیٰ حکام اور حامیوں کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا تاہم جیسے ہی نائب صدر کا قافلہ اپنی منزل کی جاب روانہ ہوا ایک زوردار دھماکے سے فضا  گونج اٹھی جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

دھماکا اتنا زوردار تھا کہ ایئرپورٹ کے تمام شیشے ٹوٹ گئے اور ہر طرف افرا تفری مچ گئی۔ ریسکیو ادارے نے امدادی کاموں کا آغاز کردیا ہے۔ اب تک 10 لاشیں اسپتال لائی جاچکی ہیں جب کہ 40 سے زائد زخمیوں کو داخل کیا گیا ہے جن میں سے 12 کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ اسپتال انتظامیہ نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

عبدالرشید دوستم کو 2014 میں افغانستان کا پہلا نائب صدر منتخب کیا گیا تھا تاہم انہیں جنگی جرائم کے باعث 2017 کو کابل کو خیر باد کہنا پڑا تھا۔ اس کے باوجود ان سےعہدہ واپس نہیں لیا گیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی کی درخواست پر عبدالرشید دوستم ترکی میں ایک سال سے زائد عرصے کی جلاوطنی کی زندگی ختم کرکے کابل پہنچے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں شمالی افغانستان کے بعض شہروں میں دوستم کے حامیوں نے اُن کی وطن واپسی کے لیے کئی مظاہرے کیے تھے ۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو نکیل ڈالنے کے لیے بھی اشرف غنی اپنے حلیف عبدالرشید دوستم کی واپسی کے خواہاں تھے۔ عبد الرشید دوستم اپنے جنگجو جانبازوں کے ساتھ طالبان اور داعش کے خلاف جنگ کے لیے شہرت رکھتے ہیں جب کہ افغان وار میں انہوں نے روس کی جانب سے حصہ لیا تھا۔

ازبک جنگجو عبد الرشید دوستم پر 2001 میں 2 ہزار سے زائد طالبان قیدیوں کے بہیمانہ قتل عام اور شدید جنگی نوعیت کے الزامات کا سامنا تھا۔ اس پر 2009 میں اس وقت کے امریکی صدر بارک اوبامہ نے تفتیشی کمیٹی بھی قائم کی تھی تاہم اس کمیٹی کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہیں آسکی ہے ۔ اس شدید عالمی دباؤ نے دوستم کو جلاوطنی پر مجبور کر دیا تھا۔

عبد الرشید دوستم اپنے حلیف اور قریبی ساتھی حامد کرزئی کی انتخابات میں مدد کرنے کے لیے 2009 میں کابل واپس آئے جہاں ایک اسٹیڈیم میں ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ 2014 میں موجودہ صدر اشرف غنی نے انہیں افغانستان کا پہلا نائب صدر منتخب کیا لیکن نومبر 2017 میں ایک اسپورٹ ایونٹ میں دوستم نے اپنے سیاسی حریف احمد اسچائی کو مکا رسید کیا ۔ بعد ازاں دوستم نے احمد اسچائی کو اغواء کر کے ایک ہفتے تک تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ۔ ان الزامات پر رشید دوستم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ 2017 کو اچانک ترکی چلے گئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔