ذکر نظم ’’مشیر‘‘ کا

سعید پرویز  پير 23 جولائی 2018

عمران خان نے کہا ’’نواز شریف کے استقبال کو جانے والے گدھے ہیں۔‘‘ایک اینکر نے اپنے ٹی وی پروگرام میں فواد چوہدری سے پوچھا ’’یہ عمران خان نے عوام کو گدھے کہہ دیا۔‘‘ جواب میں فواد چوہدری نے کہا ’’حبیب جالب نے بھی جنرل ایوب کے زمانے میں عوام کو کہا تھا، دس کروڑ یہ گدھے، جن کا نام ہے عوام۔‘‘ مجھے اس کی وضاحت کرنا پڑ گئی، یہی آج کا کالم ہے۔

یہ ایک نظم ہے جس کا نام ہے ’’مشیر‘‘۔ واقعہ یوں ہے کہ معروف اور بہت بڑے شاعر کہ جو شاہنامہ اسلام کے خالق ہیں اور یہ منفرد اعزاز، مقام بھی انھیں حاصل ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ بھی انھی نے لکھا ہے۔ جنرل ایوب خان بھی حفیظ جالندھری کی بہت عزت کرتے تھے اور گاہے بہ گاہے ان سے مختلف سیاسی امور پر مشورہ کیا کرتے تھے۔ حفیظ صاحب کو بھی جنرل ایوب خان کی قربت پر بڑا ناز تھا۔ حفیظ جالندھری کی ملاقات حبیب جالب سے پرانی انارکلی میں ہوگئی۔ دونوں سڑک کے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔

جالب نے حفیظ صاحب سے حال احوال پوچھا، تو حفیظ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا ’’میں اس کا مشیر ہوگیا ہوں‘‘ جالب نہیں سمجھے اور وضاحت چاہتے ہوئے کہا ’’حضور! کس کے مشیر ہوگئے ہیں؟‘‘ حفیظ نے اپنے دونوں کندھوں پر شہادت اور بڑی انگلی پھیرتے ہوئے کہا (ان کا اشارہ کندھوں پر سجے فوجی بلوں کی طرف تھا) ’’اوئے! میں ایوب خان کا مشیر ہوگیا ہوں، وہ مجھے رات کے ڈھائی بجے بھی فون کرکے پوچھتا ہے ’حفیظ! بتاؤ میں کیا کروں‘ تو میں اسے کہتا ہوں ’یہ جو کالے کوٹ والے (وکیل) ہیں انھیں بھی پکڑ اور جیل میں ڈال، اور یہ جو طلبا سڑکوں پر یونیورسٹی آرڈیننس منسوخ کرو کے نعرے لگاتے ہیں ان پر ڈنڈا رکھ اور جیل میں ڈال‘۔ مسلمان ڈنڈے کا ہی یار ہے۔‘‘ پھر جالب سے بڑی ترنگ میں کہا ’’میرے پاس بات کرنے کے لیے ٹائم نہیں ہے، جلدی جلدی بات کرلے۔‘‘

حفیظ جالندھری کی گفتگو سننے کے بعد جالب صاحب کے ذہن میں نظم ’’مشیر‘‘ لکھنے کا خیال آیا اور انھوں نے حفیظ جالندھری کی طرف سے یہ نظم لکھی کہ حفیظ جنرل ایوب خان کو کیا کیا مشورے دے رہے ہیں۔ حبیب جالب کی نظم ’’مشیر‘‘ بہت مقبول ہے اور جالب لاکھوں کے جلسوں میں یہ نظم پڑھا کرتے تھے اور یہی نظم اب آج کے نوجوان ’’لال بینڈ‘‘ والے گاتے ہیں۔ فواد چوہدری اپنی بات کی درستگی کرلیں! جالب نے عوام کو گدھے نہیں کہا بلکہ وہ تو عوام کو اپنی ہیر کہتے تھے، سوہنی کہتے تھے اور خود کو رانجھا اور مہینوال کہتے تھے۔ نظم مشیر بھی لکھ رہا ہوں تاکہ بات خوب واضح ہوجائے۔ نظم کا اقتباس:

مشیر

میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں

جہل کا نچوڑ ہیں

ان کی فکر سو گئی

ہر امید کی کرن

ظلمتوں میں کھو گئی

بے شعور لوگ ہیں

زندگی کا روگ ہیں

اور تیرے پاس ہے

ان کے درد کی دوا

میں نے اس سے یہ کہا

تو خدا کا نور ہے

عقل ہے شعور ہے

قوم تیرے ساتھ ہے

تیرے ہی وجود سے

ملک کی نجات ہے

تو ہے مہرِ صبح نو

تیرے بعد رات ہے

بولتے جو چند ہیں

سب یہ شر پسند ہیں

ان کی کھینچ لے زباں

ان کا گھونٹ دے گلا

میں نے اس سے یہ کہا

نظم لمبی ہے، اس لیے مکمل نہیں لکھ رہا۔ یہ مشیر ٹائپ لوگ ہر دور میں ہوتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی خوشامدیوں کی بن آتی ہے۔ یہ خوشامدی حکمرانوں کو یہی کہتے ہیں کہ تیرے دور میں بہت چین ہے، بے مثال فرق ہے/ کل میں اور آج میں اپنے خرچ پر ہیں قید / لوگ تیرے راج میں/ آدمی ہے وہ بڑا/ در پہ جو رہے پڑا/ جو پناہ مانگ لے/ اس کی بخش دے خطا۔

حتیٰ کہ یہ خوشامدی حکمرانوں کو یہ کہہ کر اپنی خوشامد ختم کرتے ہیں کہ ’’اپنی تو دعا ہے یہ / صدر تو رہے سدا‘‘۔

اس کے باوجود صدر ایوب کو جانا پڑا اور خوشامدیوں نے آنے والے حکمران کو پکڑ لیا۔

تو بھائی فواد چوہدری! جالب عوام کا شاعر ہے اور عوامی شاعر بہت بڑا مقام ہوتا ہے، اس راستے میں پاؤں ہی نہیں پورا جسم لہولہان ہوتا ہے۔ عوامی شاعری پاک صاف ہوتی ہے، اس میں لغویات کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جب یہ کالم شایع ہوگا الیکشن میں دو دن رہ جائیں گے۔

میں پھر لکھ دوں کہ الیکشن محض راستہ ہے، منزل نہیں۔ فیض کی بات دھیان میں رہے ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔