نئی عمر قید، انتخابات اور عالمی میڈیا

تنویر قیصر شاہد  پير 23 جولائی 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آج سے دو دن بعد ملک میں عام انتخابات کے لیے ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ 25جولائی کا دن ایک غیر معمولی دن ہے۔ ایسا دن جو کئی انتخابی اُمیدواروں کے لیے کامیابیاں لیے طلوع ہو گا اور کئی ناکام ہو کر مایوسیوں کے سمندر میں ڈُوب جائیں گے۔

دوبڑی پارٹیوں نے تقریروںاور اشتہاروں کی زبان میں ایک دوسرے کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں، اگر یہ اقدامات نہ کیے جاتے تو کیا خوب ہوتا! مسٹر بلاول بھٹو زرداری کی بہرحال ستائش کی گئی ہے کہ اُنہوں نے خود پر قابو رکھا ہے اور عمومی طور پر مخالفین کے کردار پر انگشت نمائی کرنے سے احتیاط برتی ہے۔ ووٹ توابھی دو دن بعد ڈالیں جائیں گے لیکن اِس موعودہ دن سے پہلے کئی یادگار فیصلے بھی سامنے آئے ہیں۔ یوں اِن انتخابات کو تاریخ ساز بھی کہا جا سکے گا۔

الیکشن کا دن آنے سے پہلے جناب نواز شریف، اُن کی صاحبزادی اور اُن کے داماد کو جیل جانا پڑا ہے۔ اُن کے کئی سینئر ساتھی عدالتوں کی طرف سے نااہل قرار دئیے گئے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کے سروں پر متوقع فیصلے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ میاں صاحب کے خلاف سنائے جانے والے تاریخی فیصلے کے ٹھیک 9دن بعد راولپنڈی سے اُن کے ایک قریبی ساتھی، حنیف عباسی، بھی انتخابات سے آؤٹ کر دئیے گئے ہیں۔ حنیف عباسی راولپنڈی کا ایک معروف سیاسی نام ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے معتمد ترین ساتھیوں میں سے ایک۔ راولپنڈی، اسلام آباد کی میٹرو اُنہی کے زیر نگرانی بروئے کار رہی ہے۔

گزشتہ سات برس سے وہ مشہور ایفی ڈرین کیس کا مبینہ طور پرمرکزی کردار تھے۔اُن کے ساتھ نصف درجن سے زائد کچھ اور بھی لوگ تھے۔ ایفی ڈرین کیس کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی شوبھا نہیں ہُوئی تھی۔ کئی عالمی اداروں کو پاکستان کے خلاف انگلیاں اُٹھانے کا موقع ملا تھا ۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران ہم اِس کیس کی جُزئیات فراموش کر چکے تھے لیکن نہ تو حنیف عباسی بھول پائے تھے اور نہ ہی مقدمہ چلانے والے۔

اِس کیس کی وجہ سے تو جناب آصف زرداری کے دَورِ صدارت میں جنوبی پنجاب سے پیپلز پارٹی کے ایک معروف سیاستدان، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد، وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تھے۔ یوں پرویز اشرف کی لاٹری نکل آئی تھی۔ قسمت کے کھیل ہیں۔ حنیف عباسی کو سنائی جانے والی عمر قید سزا نے سب کو حیران کر دیا ہے ۔ اُن کے ساتھ دیگرملزمان بری کر دئیے گئے ہیں۔ حنیف عباسی کی بدقسمتی ہے کہ وہ یوں نااہل ہُوئے ہیں کہ اُن کی جگہ الیکشن لڑنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ یوں شیخ رشید احمد کا راستہ ہموار ہُوا ہے۔ میدان ہی جب خالی ہو تو جیتنے والا مردِ میدان تو نہیں کہلا سکتا۔

حنیف عباسی سزا سنائے جانے کے بعد راولپنڈی کی اُسی جیل میں پہنچائے جا چکے ہیں جہاں اُن کے قائد پہلے ہی سے قید ہیں۔ حنیف عباسی کے خلاف سنایا جانے والا فیصلہ تادیر اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ یہ شائد وطنِ عزیز کی عدالتی تاریخ کا پہلا فیصلہ ہے جو رات گئے سنایا گیا۔ 13جولائی کو جب نواز شریف کے بارے فیصلہ سنایا جاناتھا، اُس روز بھی تاخیر پر تاخیر کی جاتی رہی۔ اور اب حنیف عباسی کے معاملے میں بھی یہی اسلوب برتا گیا۔ عوام کی نظروں میں یہ معاملات پُراسرار ہیں۔ نافہم سے۔ حنیف عباسی کا مقدمہ منشیات کے متعلق تھا جس میں اینٹی نارکوٹکس ادارے کا مرکزی کر دار تھا۔

جناب نواز شریف کے دوسرے دَورِ حکومت میںمنشیات کے حوالے ہی سے ایک مشہور شخصیت کے خلاف بھی سخت فیصلہ آیا تھا۔ حنیف عباسی کو تو عمرقید کی سزا دی گئی ہے لیکن اُس شخص کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر اپیلوں پر اپیلیں کرتے ہُوئے اِس سزا میں تخفیف کرتے ہُوئے اِسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سزا پانے والے شخص کاالزام تھا کہ اُسے اس عذاب میں اس لییلیے مبتلا کیا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کا مخالف اور بینظیر بھٹوکا حامی تھا۔ ایک روز جب وہ لاہور کے ایک ہوٹل سے اپنی مرسڈیز میں سوار باہر نکل رہا تھا تو دَھر لیا گیا۔

’’تلاشی‘‘ لی گئی تو گاڑی سے کئی کلوگرام حشیش برآمد ہُوئی۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ مقدمہ چلا اور اُسے سزائے موت ہو گئی۔ یہ شخص تقریباً ساڑھے نو سال کی سخت سزا بھگتنے کے بعد پیرول پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہُوا تو اُس نے ایک نجی ٹی وی کو اپنی پوری کہانی سنائی۔ یو ٹیوب پر یہ کہانی اب بھی سُنی جا سکتی ہے۔ اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو منشیات کے حوالے سے حنیف عباسی کو سنائی جانے والی سزائے عمر قید کوئی انوکھی اور پہلی سزا نہیں ہے۔ امکان غالب ہے کہ حنیف عباسی کچھ ہی عرصے بعد باہر آ جائیں گے کہ ابھی بڑی عدالتیں موجود ہیں۔

ہاں یہ ضرور ہُوا ہے کہ حنیف عباسی کی سزا کے بعد نون لیگ کو ایک بار پھر یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ اُن کے انتخابی راستے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ حساس ہے۔ عالمی میڈیا میں بھی شائد اِسی وجہ سے یہ باز گشت پیدا ہو رہی ہے کہ نون لیگ کے لیے راستہ ہموار اور برابر نہیں ہے۔ نون لیگ عالمی میڈیا کے اس پروپیگنڈے سے حسبِ دلخواہ مفادات سمیٹنے کی بھی کوشش کررہی ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ آیا ہمیں عالمی میڈیا کی شرارتوں اور شیطانیوں پر یقین کرلینا چاہیے؟ یہ امریکی میڈیا ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کو ’’ناجائز‘‘قرار دے رہا لیکن کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت چھوڑ دی ہے؟

یہ وہی مغربی اور امریکی میڈیا ہے جس نے اپنے مخصوص مفسدانہ مفادات کے حصول کے لیے ترکی میںہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات کے دوران طیب اردوان کے خلاف دن رات مہم چلائی۔ ترک عوام پر مگر اس کا رتّی برابر اثر نہیں ہُوا۔ طیب اردوان جیت چکے ہیں۔ تو کیا برطانوی اور امریکی میڈیا کی ترک صدارتی انتخابات کے خلاف چلائی جانے والی مہمات کی موجودگی میں ترک انتخابات ناجائز بن گئے؟ ہر گز نہیں۔اور اب اِسی مغربی اور امریکی میڈیا کے چند مفسد عناصر پاکستانی انتخابات کو اگر اپنی مخصوص عینک سے دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے رہیں۔

ہمیں بحثیتِ مجموعی اِنہیں خاطر میں ہی نہیں لانا چاہیے اور نہ ہی انھیں سر پر چڑھانے کی کوئی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے اُن اداروں پر کامل اعتماد کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے 25جولائی کے انتخابات شفاف، آزادانہ اور منصفانہ کروانے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔ ہمیں اپنے متعلقہ اداروں پر اعتبار اور اعتماد ہے۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ دو دن بعد ہونے والے عام انتخابات ہمارے آدرشوں کے مطابق منعقد ہوں گے۔ انشاء اللہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔