وقت کا تقاضا 

مقتدا منصور  پير 23 جولائی 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

چند روز بعد ہونے والے انتخابات کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے، ابھی سے واضح نظر آ رہا ہے۔ صاحب الرائے اور متوشش شہریوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ 25 جولائی کو الیکشن نہیں سلیکشن ہو گا۔ کیونکہ جس انداز میں بعض سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو انتخابی عمل سے روکنے اور من پسند جماعتوں کے لیے میدان ہموار کیا جا رہا ہے، اس نے انتخابات کو تمسخر بنا دیا ہے۔ وہ کام جو کبھی چھپ کر کیا جاتا تھا، اب کھلے بندوں کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال پر گزشتہ بدھ کو سابق پولیس افسر ذوالفقار چیمہ سمیت کئی کالم نگار اپنے کالموں میں مسلسل اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کوئی اچنھبے کی بات نہیں ہے۔ روز اول ہی سے اس کی مداخلت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہاں ایک ایسی مثال پیش کر رہے ہیں، جسے پڑھ کر قارئین کو اندازہ ہوگا کہ وطن عزیز میں ایک عام بیوروکریٹ کی نظر میں منتخب حکومت کی کیا قدر و قیمت تھی، یا ہے۔ سابق سفارت کار کرامت اﷲ غوری مختلف شخصیات کے بارے میں تاثرات پر مبنی کتاب ’’بار شناسائی‘‘ کے ایک باب میں اپنے سے سینئر سفارتکار قمر الاسلام مرحوم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

1953ء میں لاہور تاریخ کے بدترین پرتشدد  فسادات کی لپیٹ میں تھا اور حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جا رہے تھے۔ قمرالاسلام مرحوم جو ان دنوں کیبنٹ ڈویژن میں افسر تھے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی زیر صدارت کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا۔ جس میں اراکین کسی ایک بات پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے کہ عوامی احتجاجی ریلے کو کیسے روکا جائے۔ اس اجلاس میں کیبنٹ ڈویژن کے سیکریٹری اسکندرمرزا بھی شریک تھے۔ وہ خاموشی سے پوری کارروائی سن رہے تھے، تھوڑی دیر بعد وزیراعظم سے اجازت لیے بغیر باہر گئے اور کچھ دیر بعد اندر واپس آکر باآواز بلند وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“Gentlemen,you don’t have to argue anymore. I have spoken to General Azam Khan in Lahore and he is going to impose martial law there, starting tomorrow”۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’وزیراعظم سمیت ہر فرد دم بخود رہ گیا کہ اسکندر مرزا انھیں کیا فیصلہ سنا رہے ہیں اور کس حیثیت میں سنا رہے ہیں۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ ان سے سوال کرتا کہ وہ کون ہوتے ہیں جنرل اعظم کو مشورہ دینے والے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’پاکستانی سیاستدانوں پر روز اول ہی سے فوج اور بیوروکریسی کا ایسا رعب طاری ہو گیا تھا کہ کسی میں دم مارنے کی جرأت نہیں تھی‘‘۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو فیصلہ سازی اور ملک کو عوامی خواہشات کے مطابق سمت دینے کا کبھی کوئی اختیار حاصل نہیں رہا۔ جن سیاستدانوں نے خلاف آواز اٹھائی، انھیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ صرف انھی کو نہیں بلکہ جنھیں خود اسٹیبلشمنٹ سیاسی منظر عام پر لائی، انھیں بھی معمولی سی سرکشی پر بدترین انجام سے دوچار ہونا پڑا۔

ایوب دور میںبھٹو ایوب خان کے جانشیں تصور کیے جانے لگے تھے۔ پھر اسی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں ایوب خان کے خلاف استعمال کیا۔ شیخ مجیب مرحوم کی زیر قیادت عوامی لیگ کی اکثریت کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھی بھٹو کی کرشماتی شخصیت استعمال ہوئی۔ باقی ماندہ پاکستان میں اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو نے ملک کو آئین دیا اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے انتھک محنت کی۔ وہ شملہ معاہدے کے ذریعے بھارت کے قبضہ میں گئے علاقے اور 93 ہزار جنگی قیدی واپس لائے۔ مگر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا گیا ۔

محمد خان جونیجو مرحوم جنرل ضیاالحق کی پسند اور انتخاب تھے۔ ان کی سادہ لوحی اور خاموش طبع کی بنیاد پر انھیں وزارت عظمیٰ پر فائز کیا گیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے مارشل لا کے خاتمے پر زور دیا۔ جنیوا معاہدے کے ذریعے افغانستان میں امن کے قیام کی راہیں ہموار کیں۔ اوجھڑی کیمپ کے سانحہ کی تحقیق کے لیے کمیشن قائم کیا، تو ضیاء الحق کو ان سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا ان کی وطن واپسی کا انتظار کیے بغیر دوران سفر انھیں 58(2)B کے ذریعے انتہائی ہتک آمیز انداز میں برطرف کر دیا گیا۔

نواز شریف کو جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے تیار کیا تھا۔ 1990ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کرنے کے بعد نواز شریف کو وفاق میں وزارت عظمیٰ سونپی گئی، مگر جلد ہی ان کے assertive طرز عمل سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں۔ پھر انھیں بھی  راستے سے ہٹانے کے لیے  58(2)B کا سہارا لیا گیا۔ چونکہ میاں صاحب کا تعلق پنجاب کی اربن مڈل اور صنعتی کلاس سے ہے، اس لیے انھیں اکیلے اقتدار سے محروم نہیں کیا جا سکا، بلکہ صدر غلام اسحاق خان کو بھی ساتھ ہی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اقتدار کی اسی رسہ کشی میں 1997ء میں میاں صاحب دوسری بار اقتدار میں آ گئے۔ اس بار چونکہ 58(2)B ختم ہو گئی تھی، اس لیے ان کے منہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے لیے براہ راست کارروائی کی گئی۔ مگر جب پرویز مشرف نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو پر پیپلز پارٹی کے ساتھ NRO کیا تو نواز شریف کو بھی واپس آنے کی اجازت دینا پڑی۔ نواز شریف 2013ء میں ایک بار پھر اقتدار میں آ گئے۔ وہ علاقائی تجارت کے فروغ کے ذریعے ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے خواہشمند ہیں۔ اس لیے بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔ مگر ان کا اصل اور ناقابل معافی جرم پہلے سے زیادہ مستعد انداز میں سویلین بالادستی کے لیے کوششیں کرنا ہے۔

نواز شریف کی موجودہ حالات میں وطن واپسی اور جیل جانے کا فیصلہ پاکستان میں سویلین بالادستی کی جدوجہد کو مہمیز لگانے کا باعث بن رہا ہے۔ اکہتر برس کی تاریخ میں وہ پہلے پنجابی سیاستدان ہیں جو  اسٹیبلشمنٹ کی ریاستی منصوبہ سازی اور نظم حکمرانی پر بالادستی کو کھل کر چیلنج کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی خوبیوں اور خامیوں کا تقابلی جائزہ لینے یا ان کی سیاسی کمزوریوں کو اچھالنے کے بجائے جمہوریت نواز حلقوں کو ان کی سویلین بالادستی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کی ریاست اور سیاست کو درست سمت دینا ممکن نہیں ہے۔

عمران خان سمیت ان تمام قائدین کو بھی اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج وہ نواز شریف دشمنی میں ہوا کے جس گھوڑے پر سوار ہو کر جن نادیدہ قوتوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں، کل وہی قوتیں انھیں بھی ذرا سی لغزش پر نشان عبرت بنا سکتی ہیں۔ ۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مگر کرپشن گورننس سے جڑا معاملہ ہے۔ گورننس میں بہتری کے نتیجے میں کرپشن پر قابو پانا مشکل نہیں رہتا۔ لیکن یہ طے ہے کہ ایک بار نظم حکمرانی اور ریاستی منصوبہ سازی پر مکمل سویلین بالادستی قائم ہو جاتی ہے، تو پھر یقینی طور پر دیگر مسائل کے حل کے لیے ازخود راہ ہموار ہونا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ مسائل کے حل کے لیے جس سیاسی عزم وبصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ غیرمنتخب قوتوں کا نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا خاصا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔