’’چھوٹی سی غلط فہمی کردے نہ جدا ہم کو‘‘

منیرہ عادل  پير 23 جولائی 2018
شوہر کے ساتھ اس سے جڑے ہر رشتے کو احترام دینے اور اپنی محبت سے ان کے دلوں میں جگہ بنانے کا نام ہے۔  فوٹو: سوشل میڈیا

شوہر کے ساتھ اس سے جڑے ہر رشتے کو احترام دینے اور اپنی محبت سے ان کے دلوں میں جگہ بنانے کا نام ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

’’مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘ اس نے مجھے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا پھر بولی:’’آپ میری ساس، نند کو نہیں جانتیں، میرے شوہر جب اپنی ماں بہن کو کچھ نہیں کہہ سکتے تو میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘

ابھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے کچھ ہی دنوں میں ساس نند سے ہونے والی چپقلش میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میری سہیلی اپنے میکے آگئی تھی اور شوہر سے علیحدگی چاہتی تھی۔ میں نے اسے خاصا سمجھایا، اصلاحی کتاب دی، دعائیں اور وظیفے بتائے، لیکن اس کے فیصلے میں کوئی لچک محسوس نہیں ہوئی۔ کچھ ہی دنوں میں یہ صورت حال پیدا ہوگئی تھی کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شوہر نے قانونی کارروائی کے لیے طلاق کے کاغذات بنوانے چاہے تو پتا چلا کہ ضروری دستاویز بیوی کے پاس ہے۔ اس نے فون پر بیوی سے کہا کہ مطلوبہ دستاویز  دے دو تو  بیوی نے کہا، میرے میکے آکر لے جاؤ۔

شوہر نے کہا کہ میں تمہارے میکے نہیں آؤں گا۔ یہ سن کر  بیوی نے کہا:’’میں بھی تمہارے گھر دینے نہیں آؤں گی۔‘‘

آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ کسی ریستوران میں ملتے ہیں۔ جہاں بیوی وہ دستاویز شوہر کو دے دے گی،  تاکہ شوہر طلاق کے کاغذات بنوالے۔

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دونوں جب ریستوران میں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے خوب گلے شکوے کیے۔ لیکن انہی باتوں کے دوران دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے چھپی ہوئی محبت بھی عیاں ہونے لگی۔ دونوں سمجھنے لگے کہ جھگڑا تو سارا دوسروں کی وجہ سے ہے، ہمیں  آپس میں تو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں اور پھر اس دن جب دونوں اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے تو ان کی سوچ کا رخ تبدیل ہوچکا تھا۔ اب ان کی سوچ کا محور اپنا شریک حیات تھا اور پھر دونوں کبھی ریستوران اور کبھی کسی پارک میں ملنے لگے۔ دونوں کو جب اپنی باتیں کرنے کا بھرپور موقع ملا تو ایک دوسرے کے دل کی ان کہی باتیں بھی سمجھ میں آنے لگیں۔

عشق جب اپنے جوبن پر پہنچا تو دونوں نے فیصلہ کیا کہ علیحدہ مکان لے کر رہائش اختیار کی جائے، تاکہ مشترکہ خاندانی نظام میں ہونے والے جھگڑوں سے بچا جاسکے اور پرسکون زندگی گزارسکیں۔ محدود آمدنی میں علیحدہ گھر کا خرچ چلانا خاصا مشکل امر محسوس ہوتا تھا، مگر بیوی نے بھرپور ساتھ دینے کا یقین دلایا تو پھر  کرائے کا مکان لے لیا گیا۔ بیوی نے بچوں کو پڑھانے کے ساتھ گھر بیٹھے ملبوسات کی فروخت کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ شوہر ملازمت کرنے کے ساتھ گھر پر بھی کام کرنے لگا۔ دونوں کے خلوص و محبت سے گھر بہتر انداز سے چلنے لگا۔ کچھ عرصے بعد خدا نے بیٹی جیسی رحمت سے نوازا تو زندگی میں مزید خوشیاں بھرگئیں۔ وہ دونوں جو کبھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کو تیار نہ تھے، آج خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہیں۔

یہ ایک سچا واقعہ ہے اور یہ محض ایک واقعہ نہیں،  ایسی بے شمار خواتین ہیں جو شادی کے بعد ابتدائی دنوں میں ہی علیحدگی کے متعلق سوچنے لگتی ہیں۔ درحقیقت وہ زندگی میں ہونے والی تبدیلی، نئے رشتے، نئے ماحول اور معمولات زندگی کی تبدیلی سے اداسی، افسردگی، بے زاری یا ذہنی پریشانی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بیش تر لڑکیاں شادی کے متعلق خوب صورت سپنے سجائے رکھتی ہیں کہ شادی گھومنے پھرنے، خوب صورت ملبوسات اور زیورات سے سجنے سنورنے کا نام ہے، لیکن درحقیقت شادی ان تمام کے ساتھ بہت سی ذمے داریوں اور فرائض کی انجام دہی کا نام ہے۔

شوہر کے ساتھ اس سے جڑے ہر رشتے کو احترام دینے اور اپنی محبت سے ان کے دلوں میں جگہ بنانے کا نام ہے۔ عموماً میاں بیوی ان عوامل کے متعلق گفت گو نہیں کرتے۔ لہٰذا ایک دوسرے کی توقعات، عادات اور پسند نا پسند سے لاعلمی اختلاف کو جنم دیتی ہے۔ شادی کے ابتدائی ایام خصوصاً پہلا سال سب کے لیے خاصا مشکل ہوتا ہے۔ طرز زندگی اور رہن سہن کی تبدیلی، عادات و اطوار اور مزاج بھی سب کے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کا بہترین حل یہ ہے کہ توقعات کم سے کم رکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ گزارے ہر پل کو خوب صورت بنانے کے لیے اس میں محبت کے رنگ شامل کریں۔ چاہتوں کا اظہار اور ستائشی کلمات رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔

شادی کے چند برس بعد بھی اکثر جوڑوں میں اختلافات بڑھ کر نوبت علیحدگی تک جا پہنچتی ہے۔ ایسا ہی ایک کیس خلع کا عدالت میں چل رہا تھا۔ میاں بیوی دونوں ہی ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے تھے۔ میاں بیوی میں علیحدگی کا معاملہ ہو تو ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے اور مفاہمت سے معاملات طے ہوجائیں۔ ایک کاؤنسلر نے بیوی کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے گھر جائیں اور اپنے شوہر سے بات کریں۔ ایک دوسرے کی شکایات سنیں۔ بیوی بچوں سمیت اپنے میکے میں ہی مقیم تھی۔ گوکہ یہ مشکل امر تھا کہ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر شوہر سے جاکر بات کی جائے،  لیکن وہ اپنے گھر گئی۔

گھر کی ایک چابی اس کے پاس تھی۔ گھر میں داخل ہوئی تو  آنکھوں نے ضبط کے سارے بندھن توڑ دیے۔ یہ وہی گھر تھا جس کی وہ ملکہ تھی،  جب کہ میکے میں اپنی حیثیت وہ اتنے دنوں میں جان گئی تھی۔ وہ گھر (میکہ) اب اس کی بھابھی کا تھا۔ اس گھر میں اس کے اور بچوں کے ساتھ ہونے والا بھابھی کا رویہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ اس گھر کی حالت ابتر ہوچکی تھی۔ میلے کپڑوں اور جھوٹے برتنوں کا ڈھیر، بکھری ہوئی اشیا، اس نے تمام گھر کو چمکادیا اور شوہر کی پسند کا کھانا بناکر خود بھی تیار ہوگئی۔ شوہر آفس سے گھر آئے تو حیران رہ گئے۔ پہلے تو گلے شکوے ہوئے، بحث بھی ہوئی، مگر پھر دونوں نے ہی فیصلہ کیا کہ تمام جھگڑے، عدالتی کارروائی سب ختم کرکے دوبارہ سے خوشگوار زندگی گزاریں گے۔ بچوں کو بھی ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہے اور یوں ان کا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا۔

درحقیقت اکثر اوقات اختلافات اس لیے بھی طوالت پکڑ لیتے ہیں کہ ہم اس پر بات نہیں کرتے۔ دوسرے کا موقف سنے بغیر فیصلے کرلیتے ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا سب سے حساس اور نازک رشتہ ہے۔ اس کا خیال نہ رکھا جائے تو رشتے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ خود بہ خود شادی کے کچھ عرصے بعد ہونے والے اختلافات درحقیقت خودرو جھاڑیوں کی مانند ہوتے ہیں، لہٰذا اپنے رشتوں کو ہر دم تازہ رکھنے کے لیے اپنے شریک حیات کا خیال رکھیں۔ ان سے محبتوں کا اظہار کریں۔ ایک دوسرے کو تحفے بھی دیں۔ دونوں ایک دوسرے کی  پسند ناپسند کو مقدم رکھیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ شوہر کو عزت دیں۔ بعض خواتین شوہر کی عزت نہیں کرتیں۔ دوسروں کے سامنے طنزیہ گفت گو کرتی ہیں اور کسی بھی شخص کے لیے یہ سب سے تکلیف دہ امر ہوتا ہے کہ اس کی شریک حیات اس کی عزت نہ کرے۔ لہٰذا زندگی کی الف بے پ پر عمل پیرا رہیں یعنی الف سے ادب، ب سے برداشت اور پے سے پیار، تو زندگی بے حد حسین ہوجائے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔