خلع کا حق

نادیہ حسین  پير 23 جولائی 2018
اسلامی شریعت میں جہاں شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر رشتۂ ازدواج سے آزاد کر سکتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اسلامی شریعت میں جہاں شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر رشتۂ ازدواج سے آزاد کر سکتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی: انسانی رشتوں میں رشتۂ ازدواج ایک ایسا رشتہ ہے جو بہ یک وقت انتہائی مضبوط بھی ہے اور حد درجہ نازک بھی۔ ’’قبول ہے‘‘ کا تین بار اقرار جہاں دو اجنبی مرد و عورت کو تمام عمر کے لیے حقوق و فرائض کی ادائی کے لیے ایک مقدس بندھن میں باندھ دیتا ہے، وہیں طلاق کی تین بار تکرار زوجین کے مابین نہ ختم ہونے والی حد فاصل بھی قائم کردیتی ہے۔

اسلامی شریعت میں جہاں شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر رشتۂ ازدواج سے آزاد کر سکتا ہے، وہیں بیوی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر اس کے لیے حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے ازدواجی تعلق کو قائم رکھنا  ممکن نہ رہے تو وہ اپنے آپ  کو اس بندھن سے آزاد کراسکے۔

قانونی اصطلاح میں یہ حق خلع کہلاتا ہے۔ خلع کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو معاوضے کی پیشکش کرے اور شوہر اسے قبول کر لے۔ قانون میں ایک عورت کو خلع کا جو حق حاصل ہے، وہ اسے محض خواہشات نفسانی کی خاطر بے جا طور پر استعمال نہیں کرسکتی، بلکہ زوجین حدود اللہ میں رہ کر زندگی بسر نہ  کر سکیں تب ہی یہ حق استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قانون میں واضح طور پر ان عوامل کی نشان دہی اور وضاحت کی گئی ہے جن میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی کی صورت میں بیوی کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے اپنے شوہر سے خلع حاصل کر لے، مثلاً:

شوہر اگر چار سال کی مدت سے لا پتا ہو یا غیر حاضر ہو۔

شوہر نے عرصہ دو سال سے بیوی کو نان و نفقہ دینے میں غفلت کی ہو یا اس کی ادائی نہ کی ہو۔

شوہر کو کسی جرم میں سات سال یا اس سے زائد کی قید کی سزا ہوئی ہو۔

شوہر حق زوجیت کی ادائی سے قاصر ہو۔

شوہر اپنی بیوی پر جسمانی تشدد کرتا ہو۔

شوہر بدنام عورتوں کی صحبت میں رہتا ہو یا بدنام زندگی بسر کرتا ہو۔

شوہر اپنی بیوی کو غیر اخلاقی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا ہو۔

مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر بیوی کو خلع کا قانونی حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن دوسری طرف اگر ہم فیملی کورٹس میں داخل تنسیخ نکاح کی درخواستوں کا مشاہدہ کریں تو وہاں حالات بالکل برعکس ہیں۔ فیملی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات کی اکثریت میں بنیاد تو مندرجہ بالا وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کو ہی بنایا جاتا ہے، لیکن در حقیقت اس کے پیچھے تیسرے فریق کی موجودگی کار فرما ہوتی ہے جو ایک جوڑے کے مابین ازدواجی تعلق میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتی ہے۔ یہی تیسرا فریق ایک عورت کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی ہنستی بستی گھریلو اور ازدواجی زندگی کو ختم کرے۔

عدالتوں میں درخواست داخل کرنے سے لے کر خلع کی ڈگری کے حصول تک تمام مراحل کی تکمیل اور مالی امداد کی فراہمی تک اسی فریق کی مدد درخواست گزار کو حاصل رہتی ہے، قطع نظر اس کے کہ خلع کا حصول عورت کا قانونی حق ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ معاشرتی المیہ بن گیا ہے کہ محض نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح کے مقدس بندھن کو ختم کرکے ایک پرسکون گھریلو زندگی کو اختتام پذیر کرنا کسی طور بھی پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ خاندان کی تباہی کی ذمے دار جہاں عورت ہوتی ہے، وہیں مرد کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

قرآن مجید میں ان مردوں پر لعنت بھیجی گئی ہے جن کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی غیر موجودگی میں کون مرد ان کے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ مرد حضرات اپنی فکر معاش کے سلسلے میں بسا اوقات اپنی گھریلو ذمے داریوں سے اس قدر بے بہرہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے گھر بربادی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ ذمے داری عدالتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پاکستانی عدالتوں میں جہاں انصاف کا حصول جوے شیر لانے کے مترادف ہے، وہیں خلع کے مقدمات داخل ہو کر چھے سے آٹھ ماہ کی مدت میں نمٹا دیے جاتے ہیں۔

خاندانی اور عائلی زندگی کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔ آئین اس کی ضمانت دیتا ہے، لیکن افراد کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی گھریلو اور خاندانی زندگی کو بگاڑ سے محفوظ رکھیں اور حقوق کا استعمال جائز مقاصد کے لیے  ہی کریں۔ جو افراد بلاوجہ اپنی ازدواجی زندگی کو خاتمے تک لے جاتے، انہیں یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہیے کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال اعمال میں سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق کا ہے جس کے نتائج پہلے خاندان اور پھر بہ تدریج پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔