ایسے بھی امیدوار

انوکھے نعروں اور دل چسپ وعدوں کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترنے والے۔ فوٹو: فائل

انوکھے نعروں اور دل چسپ وعدوں کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترنے والے۔ فوٹو: فائل

لاہور / اسلام آباد / حیدرآباد: انتخابات خوابوں، آرزوؤں اور امیدوں کا ایک میلہ لگ جانے کا نام ہے۔ سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کام یابی اور اقتدار کے حصول کی خواہش لیے میدان میں نکلتی ہیں تو امیدوار  منتخب ایوان کی رکنیت پانے سے وزارت  کا پھریرا اپنی گاڑیوں پر لہرانے کا سپنا سجائے ایک دوسرے کے مدِمقابل آتے ہیں۔

اسی طرح رائے دہندگان اپنے مسائل حل ہونے  کی  امید باندھے جلسہ گاہوں میں  گھنٹوں بیٹھ کر نعرے لگانے سے پولنگ اسٹیشنوں پر قطار میں لگنے تک کی  کی صعوبتیں اٹھاتے ہیں۔ اس ساری گہماگہمی  میں جہاں مخالفانہ نعرے، تندوتیز تقریریں  اور کشیدگی  ماحول کو مکدر بناتی ہے، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دم سے الیکشن کی رونق ہی دوبالا نہیں ہوتی  بل کہ کشیدہ فضا میں شگفتگی کا سامان بھی ہوجاتا ہے۔ یہ ہیں  وہ امیدوار جو بڑے دل چسپ نعروں، انوکھے منشور اور منفرد عزائم کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ الیکشن 2013 میں بھی کچھ ایسے امیدوار ملک کے مختلف حلقوں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ آئیے! آپ کو ان سے ملائیں۔

تھوڑی کرپشن چلے گی

صاف گو امیدوار کرتا ہے سیدھی بات

آپ جناب سرکار پارٹی کے مرکزی چیئرمین نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ 1988ء سے آج تک چاروں صوبوں کے 33 صوبائی و قومی حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ 25 سال سے مسلسل الیکشن لڑنے والے امبر شہزادہ 3،3بار صدارتی اور سینیٹ کے امیدوار بھی رہ چکے ہیں، لیکن وہ آج تک کبھی بھی کسی بھی ایوان کے لیے منتخب نہیں ہوسکے۔ 2013ء الیکشن میں ایک بار پھر نواب صاحب سرگرم ہیں اور لاہور کے 4 حلقوں این اے 120، 122، 123 اور 126سے انتخابی معرکے میں شریک ہیں۔

سیب کا انتخابی نشان پانے والے امبر شہزادہ این اے 120سے نواز شریف اور 122سے عمران خان کے مدمقابل ہیں۔ چیئرمین آپ جناب سرکار پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ سیاست دانوں کا قبلہ درست کرنے اور انہیں آئینہ دکھانے کے لیے سیاست کے اکھاڑے میں اترے ہیں اور یہ سلسلہ مقصد کے حصول یا زندگی کی ڈور ٹوٹنے تک جاری رہے گا۔ عوام کے پیسے سے ان ہی کے لیے سیاست کرتا ہوں۔ آج تک ملک کو حقیقی نمائندگی نہیں ملی، یہ سب لوگ جعلی مینڈیٹ پر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ نوازشریف آمریت نما جمہوریت کرتے ہیں جو فوج کو دعوت دیتی ہے، ان کے خلاف چھٹی بار الیکشن لڑ رہا ہوں اور انشاء اللہ ضرور کام یاب ہوں گا۔ عمران خان کی طرف سے تبدیلی اور مکمل کرپشن ختم کرنے کے دعوے جھوٹے ہیں اور ان پر یقین نہیں کرتا۔ کرپشن قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی، میں تھوڑی کرپشن کا قائل ہوں۔ خواہش کے تحت کرپشن کے خلاف جب کہ ضرورت کے تحت اس کے حق میں ہوں۔ ہم تبدیلی نہیں خوش حالی چاہتے ہیں۔ تبدیلی سوچ اور خوش حالی ملک میں آنی چاہیے۔ قوم سبز باغ دکھانے اور جھوٹ بولنے والوں لیڈروں سے پرہیز کریں۔

پستہ قد افراد کے حقوق کے لیے میدان میں

3 فُٹ قامت کا امیدوار اپنے جیسے لوگوں کی خاطر الیکشن لڑ رہا ہے

سانگلا ہل کے رہائشی 3 فٹ قد کے مالک پان فروش محمد اسلم عرف لالہ حلقہ پی پی 170 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے میاں مشتاق حسین اور تحریک انصاف کے احمد سجاد رندھاوا ان کے مدمقابل ہیں۔ بوتل کا انتخابی نشان پانے والے لالہ بھٹی16 مارچ 1955ء کو سانگلاہل کے محلہ پرانا چہور میں پیدا ہوئے۔ نامساعد گھریلو حالات کے باعث پانچویں تک تعلیم حاصل کرنے والے امیدوار صوبائی اسمبلی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے قالین بافی کا کام کرنے کے علاوہ ٹرینوں میں ٹافی اور آئس کریم فروخت کرتے رہے ہیں۔ اس وقت کچہری کے قریب پان اور سگریٹ فروشی کا کام کرنے والے محمد اسلم نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی (1979ء) میں ناکامی کے بعد لالہ بھٹی نے دوسری شادی 1996ء میں کی۔ ان کی3بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ لالہ کی بیوی اور 2بیٹیوں کا قد بھی 3فٹ ہی ہے۔ محمد اسلم کا کہنا ہے،’’حکومت نے آج تک پست قد والوں کے لے کوئی قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی فنڈ قائم کیا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس نے مجھے الیکشن لڑنے پر مجبور کر دیا۔ الیکشن میں کام یاب ہو کر ملکی اداروں میں پست قد والوں کے لیے باقاعدہ کوٹہ مختص کروانے کے ساتھ حلقے کے عوام کی خوش حالی کے لیے انڈسٹری لگائی جائے گی۔ نوجوانوں کو میرٹ پر روزگار کی فراہمی، منشیات فروشی اور تھانے کی سیاست کا خاتمہ میری اولین ترجیحات ہیں۔ الیکشن لڑنے کے فیصلہ کو علاقہ بھر میں پذیرائی ملی ہے اور لوگ خود ہی میرے تمام تر انتخابی اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔‘‘

میرا منشور، ہر کنوارے کی شادی

کاغذات نا م زدگی جمع کرائے بغیر کام یابی کا آرزومند امیدوار

الیکشن کی میراتھون میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد منظوری کا ملنا ضروری ہے، لیکن ایک سادہ لوح شخص ایسا بھی ہے، جس نے کاغذات نام زدگی تو جمع نہیں کروائے لیکن وہ سارا دن الیکشن مہم چلاکر لوگوں سے ووٹ مانگتا ہے۔

واں بھچراں کا رہائشی 40 سالہ نور جمال اعوان الیکشن میں باقاعدہ حصہ لینے والے امیدواروں کی نسبت زیادہ محنت سے اپنی الیکشن مہم چلارہا ہے۔ نور جمال اعوان باقاعدہ امیدوار اسمبلی کے روپ میں علاقے اور واں بھچراں شہر میں جگہ جگہ جلسے کرتا ہے اور اپنا منشور عوام تک پہنچاتا ہے۔ سیکڑوں شہری بھی نور جمال اعوان کو دیکھتے ہی جمع ہوجاتے ہیں۔ نورجمال کا کہنا ہے کہ میں آزاد حیثیت سے حلقہ پی پی 45 سے الیکشن لڑرہا ہوں۔ میں غریبوں کی مدد کے لیے الیکشن کے میدان میں آیا ہوں۔ آج غریب بجلی اور گیس کے بھاری بھرکم بل ادا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے، میں جیت کر بجلی اور گیس کے نرخوں میں انتہائی کمی کر دوں گا۔ اس کے ساتھ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے کالا باغ ڈیم بناؤں گا، جس سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ علاقے میں سڑک کا جال بچھاؤں گا، جیتنے بھی کنوارے ہیں ان کی شادیاں کروانے کے ساتھ انہیں نوکریاں بھی دوں گا۔ میری عوام سے اپیل ہے کہ میرے انتخابی نشان ’’چمٹا‘‘ کو ووٹ دے کر کام یاب کرائیں۔

نور جمال اعوان صبح سے لے کر شام تک جلسے کرتا ہے اور لوگوں کو مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتا ہے۔ 4 ماہ قبل بھائی کی وفات سے ملنے والے صدمے نے خود ساختہ امیدوار صوبائی نور جمال اعوان کی ذہنی صحت پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن وہ الیکشن مہم کسی پڑھے لکھے اور کام یابی کے لیے سنجیدہ امیدوار کی طرح چلارہا ہے اور زبردست تقریریں بھی کرتا ہے۔ نور جمال کا کوئی بھائی یا بہن نہیں اور اپنی بیوی کو بھی وہ طلاق دے چکا ہے۔

آپ میرے بینر یا اشتہار بنوادیں

جے سالک کی ووٹروں سے اپیل

انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہر امیدوار کی دلی خواہش ہوتی ہے اور اس امر کے لیے انتخابی مہم پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر وفاقی دارالحکومت کے دونوں حلقوں میں دوآزاد امیدوار ایسے بھی ہیں جو اپنی حالیہ الیکشن مہم نہایت کم اخراجات سے چلارہے ہیں اور یوں ان کی غربت ان کا مذاق بن رہی ہے۔

پہلے امیدوار حلقہ این اے – 48 اسلام آباد  کے معروف سماجی کارکن جے سالک ہیں، جنہوں نے اپنے اشتہاری پمفلٹ میں ووٹروں کودعوت دی ہے،’’اگر آپ مجھے اپنی امنگوں کے عین مطابق تصور کرتے ہیں اور میری مدد بھی کرنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں، میرے بینر یا اشتہار بنوادیں۔‘‘ مالی مدد کے لیے انہوں نے اپنی ویب سائٹ اور موبائل فون بھی پمفلٹ پر درج کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے،’’میں دوسروں کی طرح چھپ کر مدد نہیں مانگتا، میں جو ہوں،  سب کے سامنے ہوں۔‘‘ جے سالک نے اپنے منشور کی وضاحت اس شعر کے ذریعے کی ہے:

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

سائیکل پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر انتخابی مہم

راجہ اورنگ زیب گلی گلی محلہ محلہ جاکر ووٹروں سے رابطہ کر رہے ہیں

وفاقی دارالحکومت کو وی آئی پی شہر کہا جاتا ہے لیکن اس شہر کے حلقہ این اے- 49 میں ایک غریب شخص بھی انتخابی میدان میں کود پڑا ہے۔  یہ پچپن سالہ راجہ اورنگ زیب خان ہے جو عام انتخابات میں بہ طور آزاد امیدوار حصہ لے رہا ہے۔ فراش ٹائون اسلام آباد کا یہ رہائشی اپنی سائیکل پر لاؤڈ اسپیکر لگاکر گلی گلی جاکر انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ راجہ اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ سائیکل سے اچھی سواری کوئی نہیں، نہ پیٹرول کا خرچہ نہ سی این جی بھروانے کی فکر اور نہ کوئی اور جھنجھٹ۔ راجہ اورنگ زیب گلی گلی، محلے محلے جا کر اپنی سائیکل اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے ووٹروں کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ راجہ اورنگ زیب کا  عزم ہے کہ وہ جیت کر قومی اسمبلی بھی سائیکل پر ہی جایا کریں گے۔ راجہ اورنگ زیب کے بینک میں سوائے بارہ سو روپے کے اور کچھ بھی نہیں مگر ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اس امیدوار کے ارادے بہت پختہ ہیں۔ سوچنے کی بات  یہ ہے کہ جب ایک عام شہری، جس کو کوئی جانتا بھی نہیں وہ اپنی تمام تر انتخابی مہم صرف 9000 ہزار روپے میں مکمل کر سکتا ہے تو اس ملک کی جانی پہچانی شخصیات کو انتخابی مہم کے لیے لاکھوں روپے کیوں خرچ کرنے پڑتے ہیں؟

مزدور اور مستری، سب کریں گے استری

درزی اشرف قریشی دل چسپ نعرے کے ساتھ میدان میں

ایک امیدوار حیدرآباد کے پی ایس45 سے الیکشن لڑ رہے ہیں، نام ہے ان کا اشرف قریشی اور پیشے کے اعتبار سے وہ ہیں درزی۔ اور وہ بھی لیڈیز ٹیلر، جن کے پاس خواتین کی بڑی تعداد اپنے کپڑے سلوانے آتی ہے اب یہ ’’مزدور اور مستری، سب کریں گے استری‘‘ کے نعرے کے ساتھ الیکشن میں کود پڑے ہیں اور انھوں نے اپنا انتخابی نشان بھی لیا ہے استری۔ یوں جب اپنی دکان پر ہوتے ہیں تو استری ہاتھ میں لیے بیٹھے رہتے ہیں اور جب دکان سے نکلتے ہیں تو استری لے کر اکیلے ہی ووٹروں کو منانے کی مہم شروع کردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ وہ کم زور ترین امیدوار ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں اگر منتخب ہوا تو قائداعظم کے فرمودات کے مطابق عمل کروں گا۔ کم وسائل اور پیسوں کی کمی کے باعث اشرف قریشی کی انتخابی مہم میں گہماگہمی تو دور دور تک نہیں نظر نہیں آتی لیکن ان کے دوست، ہم درد اور درزی کے پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد نعروں کی گونج میں اس کے ساتھ اس انتخابی حلقے کے بازاروں کی مختلف دکانوں پر جاکر دکان داروں کو اشرف قریشی کے منشور سے آگاہی دیتے ہوئے گیارہ مئی کو استری پر نشان لگانے کے لیے قائل کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھی درزی فرقان قریشی کا کہنا ہے کہ انہیں اس چیز کی بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ایک درزی بھائی نے الیکشن میں حصہ لیا۔ انھیں ووٹ دے کر کام یاب کرنا چاہتے ہیں۔ اشرف قریشی کہتے ہیں کہ اگر وہ کام یاب ہوئے تو بھی اپنا کام نہیں چھوڑیں گے۔ صبح کے اوقات میں حلقے کے عوام کی خدمت ہوگی اور شام کو کچھ دیر وہ اپنی دکان پر گزاریں گے۔ تاہم جب وہ اسمبلی میں شرکت کے لیے کراچی میں ہوا کریں گے تو اپنی دکان پر بورڈ لگاکر جائیں گے کہ وہ اسمبلی جا رہے ہیں واپس آ کر گاہکوں کو سلے ہوئے کپڑے دیں گے۔ اشرف قریشی کا اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ وہ الیکشن بہت بری طرح ہار سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62/63 پر پورا اترتے ہیں، یعنی صادق و امین ہیں۔

منفرد انتخابی جلسہ

کراچی سے سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس129 پر کُل 39 انتخابی امیدوار میدان میں ہیں، جن میں عثمان غنی بھی شامل ہیں۔ ان کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ آزاد امیدوار کے طور مقابلے کے لیے سمندر میں اُترے ہیں۔ عثمان غنی ماہی گیر ہیں، جو اس پیشے سے جڑے ہوئے لوگوں کی پرانی بستی ابراہیم حیدری میں رہتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے اس حلقے میں ابراہیم حیدری کے ساتھ ساحلی علاقے جمعہ گوٹھ، علی اکبر شاہ گوٹھ، لالہ آباد، ریڑھی گوٹھ اور بھینس کالونی، بختاور گوٹھ، مظفر آباد کی آبادی شامل ہے۔ ان بستیوں کے ووٹروں کی تیس فی صد سے زاید تعداد ماہی گیروں کی بتائی جاتی ہے۔

انتخابی مہم اور جلسے کیسے منفرد ہو سکتے ہیں؟ وہی روایتی طرز کا پنڈال، نشستیں، شرکاء کے نعرے، بہت کچھ کہنے اور کم کم سننے کے بعد سیاسی جماعتوں کے امیدوار کا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جانا، لیکن عثمان غنی نے مختلف ڈھب سے جلسہ کر کے اپنے حلقے میں سب کی توجہ حاصل کرلی ہے۔ ان کے جلسے کی انفرادیت اس کا سمندر میں انعقاد تھا، جہاں پہنچنے کے بعد عثمان غنی نے شرکاء کو بتایا کہ ان کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچنے کے بعد وہ کیا کریں گے۔ اس جلسے کی دعوت انتخابی امیدوار نے اپنے حلقے میں پمفلٹ کی تقسیم اور دیواروں پر پوسٹر چسپاں کر کے دی تھی۔ سمندر میں جلسہ گاہ تک رسائی کے لیے 100 سے زاید کشتیوں کا انتظام کیا گیا، جب کہ عام شرکاء کے لیے 2000 سے زاید لائف جیکٹس کا بھی بندوبست کیا گیا تھا۔

عثمان غنی کے مطابق شرکاء کی مکمل حفاظت ان کے لیے بڑا چیلنیج تھی اور زمین پر واپسی تک وہ سب کے لیے خاصے فکرمند رہے۔ ان کے مطابق کہنے کو تو یہ جلسہ انتخابی مہم کی ایک کڑی تھا، مگر اس کا ایک مقصد اربابِ اختیار اور لوگوں کو ماہی گیروں کے مسائل کی طرف متوجہ کرنا بھی تھا۔

جلسے کے سلسلے میں سمندر میں کسی ناگہانی آفت اور ممکنہ حادثے کی صورت میں طبی امداد اور دیگر امور انجام دینے کے لیے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔

ماہی گیروں میں تعلیم کا شعور اجاگر کرنا اسکولوں کا قیام اور ماہی گیری کے شعبے کو ترقی دینا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ عثمان غنی کے مطابق ماہی گیری کی صنعت عدم توجہی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور سمندروں میں رزق کی تلاش کے لیے جانے والوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ وہ اسمبلی میں پہنچ کر ان کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے تعلیمی اعتبار سے پستی کو مسائل کی جڑ بتایا۔ ان کی خواہش ہے کہ ماہی گیر اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں۔ عثمان غنی کے مطابق ان کے حلقے میں صرف ماہی گیر ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر طبقے اور شعبے سے وابستہ افراد رہتے ہیں اور وہ ان سب کی آواز آگے پہنچائیں گے۔

39 سالہ عثمان غنی انٹر کی سند کے حامل ہیں۔  (عارف عزیز)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔