معمولی پرچی ۔۔۔۔ مقدس امانت

غلام محی الدین  اتوار 12 مئ 2013
بیلٹ پیپر کی کہانی، اس کی اپنی زبانی۔ فوٹو: فائل

بیلٹ پیپر کی کہانی، اس کی اپنی زبانی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: میرا نام بیلٹ پیپر ہے، ووٹ کی پرچی بھی مجھی کو کہتے ہیں، پیار سے محض ’’پرچی‘‘ بھی پکاری جاتی ہوں اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی یہی نام اچھا لگتا ہے لیکن قانون کی دستاویزات میں میرا نام بیلٹ پیپر ہی ہے۔

جب قومی یا صوبائی اسمبلی یا بلدیاتی انتخابات کی تاریخ مقرر ہو جاتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان، اعلیٰ سطح پر فیصلے کرنے کے بعد میرے خدوخال کی حتمی منظوری دیتا ہے اور اُس کے بعد میرے لیے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، پھر میری اشاعت ہوتی ہے اور اُس کے بعد ہم ’’پرچیاں‘‘ معرض وجود میں آ جاتی ہیں۔

رواں سال 11 مئی 2013 کو ملک بھر کے رجسٹرڈ ووٹر اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں ہم پر مہر ثبت کرکے اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کریں گے۔ کچھ دیر ہم تِہ کی ہوئی ہیئت میں بیلٹ بکس میں مقید رہیں گی پھر ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ہمیں بیلٹ بکس سے نکالا جائے گا، ہماری تہوں کو سیدھا کیا جائے گا، ہماری گنتی ہو گی، نتائج تیار ہوں گے، جس کے نصیب میں ہماری زیادہ تعداد ہوگی وہ تو منائیں گے خوشیاں اور جس کے نام ہم کم پڑیں، ان کی ہوگی شام غریباں۔ اگر کسی دل جلے نے دھاندلی کا الزام لگا دیا اور دوبارہ گنتی کی درخواست دے دی تو ہمیں سیل بند ڈبوں سے دوبارہ نکال کر گنا جائے گا اور نئے سرے سے ضمنی رزلٹ تیار کر کے اعلان کر دیا جائے گا۔

رواں سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میری تیاری کے لیے ملک کے ان تمام شہروں میں سیکیوریٹی کو پیش نظر رکھتے ہوئے فوج کی ایک کمپنی کو نگرانی کی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں۔ 14 اپریل کو اِس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور اِس کے بعد اسلام آباد اور لاہور میں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے دفاتر اور کراچی میں سیکیوریٹی پرنٹنگ پریس کے دفاتر کے اندر اور باہر فوج کے پہرے بٹھا دیے گئے۔ 20 اپریل کو ہم پرچیوں کی طباعت شروع ہوگئی جو 25 اپریل تک مسلسل جاری رہی۔ درمیان میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کام رکا بھی لیکن متبادل انتظامات کے باعث اور ورکروں کی ان تھک محنت کے بعد ہم مقررہ مدت میں چھپ کر تیار ہو چکی تھیں۔ قومی اسمبلی کی پرچی کو ہرا اور صوبائی اسمبلی کی پرچی کو سفید رنگت کا چولا پہنایا گیا ہے۔ امیدواروں کے نام اور ان کے انتخابی نشانات کی ہم پر کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ کراچی میں ہماری طباعت ان پریس مشینوں پر ہوئی جہاں کرنسی نوٹ چھاپے جاتے ہیں، یہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اس بار 18 کروڑ پرچیاں تیار کی گئی ہیں جب کہ 2 کروڑ زائد پرچیاں بھی چھاپی گئی ہیں۔ اب ہم ملک بھر میں 5 لاکھ پولنگ سٹاف میں تقسیم ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس پولنگ سٹاف نے ہمارے تقدس اور عزت و احترام کو برقرار رکھنے کے لیے خصوصی تربیت حاصل کری ہے اگر تربیت پر عمل ہوا تو خوب ورنہ آپ جانیے دوسری صورت میں ہماری جو درگت بنتی ہے۔ ہم ابھی تک نئی نویلی دلہن کی طرح ڈبوں میں بند بیٹھی اپنے اپنے ووٹر کا انتظار کر رہی ہیں۔ 11 مئی کو ہماری منہ دکھائی ہو گی، پھر ڈولی میں بیٹھ کر بیلٹ بکس میں کچھ دیر قیام کریں گی اور اس کے بعد ریٹرننگ آفیسر کی نگرانی میں ہماری گنتی کے بعد ہماری قسمت بل کہ یوں کہیے کہ قوم کی آئندہ پانچ برس کی تقدیر کا حتمی فیصلہ ہو جائے گا اور ہم ۔۔۔۔۔ ہم سدا سہاگن بن کر سیل کر دی جائیں گی۔

ابھی تک کسی بھی نامحرم نے ہمیں دیکھنے اور چھونے کی جرأت نہیں کی کیوںکہ ہمارے پہرے دار فوج کے لوگ ہیں جو اپنی عزت اور وقار کے لیے ہر قربانی دینے کو ہر لمحے تیار رہتے ہیں۔ 5 مئی تک فوجی بھائیوں کی نگرانی میں ہمیں ریٹرننگ آفیسروں تک پہنچا دیا جائے گا اور یوں قومی اسمبلی کی 272 اور صوبائی اسمبلی کی 577 نشستوں کے لیے ہمارے ذریعے انتخاب کا عمل مکمل ہو گا۔

ہمیں بناؤ، سنگھار اور تیار کرنے کے لیے وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطالبے پر 710 ارب روپے فراہم کیے ہیں جن میں سے ایک ارب روپے ہماری اشاعت پر خرچ ہو چکے ہیں۔ رواں سال ہم پر ٹھپا لگانے کے لیے ووٹرز کو کسی بھی نجی ادارے میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن پر نہیں جانا پڑے گا۔ سیکیوریٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام پولنگ اسٹیشن سرکاری عمارتوں میں ہی تیار کیے گئے ہیں۔ ہم بھی خوش ہیں کہ اس امر سے پولنگ اسٹیشنوں پر امن و امان کی فضا برقرار رہے گی۔ اس بار فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر صرف 200 ووٹروں کو ہی اکٹھا کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال سے فوری طور پر  نمٹا جا سکے۔

میں یہاں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ جو لوگ ابھی تک الیکشن کے انعقاد سے متعلق شک و شبہے کا شکار ہیں وہ اب ووٹ ڈالنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالیں گے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور اس مرتبہ عملی طور پر نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر آپ ووٹروں نے درست فیصلہ کر لیا تو انشاء اللہ ملک کے حالات ضرور سنور جائیں گے۔ میری بات کا یقین کریں میں کاغذ کی محض ایک رنگی ہوئی دھجی نہیں ہوں بل کہ اس پاک وطن کی تاریخ مرتب کرنے کا فریضہ بھی ادا کرتی ہوں اور اگر آپ مجھے بہ جا استعمال کر پائیں تو کیا بعید کہ میں آپ کو تاریخ کے سنہرے عہد میں لے جاؤں۔ میری لکھی ہوئی تاریخ کو مسخ اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری گنتی ہوتی ہے، اور ملک کے 8 کروڑ سے زیادہ ووٹر جو ہم پر مہر لگا کر واپس گھر جا چکے ہوتے ہیں، وہ حقیقت کو جان چکے ہوتے ہیں کہ حقیقی فتح کس کے حصے میں آئی ہے، پھر یہ تاریخ ہر امیدوار کے نام زد کردہ پولنگ ایجنٹ کے سامنے لکھی جاتی ہے، اگر کوئی اعتراض اٹھاتا ہے تو اُس کو دور کیا جاتا ہے اگر وہ مطمئن نہ ہو تو حکام بالا تک شکایات کرنے کا اُسے موقع دیا جاتا ہے، یہی انصاف کے تقاضے ہیں جو کسی بھی شفاف انتخابات کی جان ہوتے ہیں۔

دوران طباعت ہمارے متعلق کہا جا رہا تھا کہ اب کی بار ہماری قد و قامت مختصر ہو گی کیوں کہ حکومت نے قومی اسمبلی کے لیے نام زدگی فیس 4 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 2 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کر دی ہے، اس لیے کم لوگ کاغذات نام زدگی جمع کرائیں گے لیکن باتیں کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی، ہمارے قد کاٹھ نہ صرف پہلے سے زیادہ بہتر ہوئے بل کہ ہمارے اوپر نئے نئے انتخابی نشان بھی چھاپے گئے۔ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ الیکشن کے بعد اگر کوئی امیدوار ووٹوں کی تعداد چیلنج کرتا ہے تو اس کو دو روپے فی ووٹ ادا کرنا پڑتے تھے لیکن اب یہ رقم بھی بڑھا دی گئی ہے، اب چیلنجر کو ایک ووٹ پر 10 روپے دینا پڑیں گے، قوی امید ہے کہ جس طرح ہماری قد و قامت میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح ہم پر اعتراض کرنے والوں کی جیبوں سے ماضی کی نسبت پیسے بھی زیادہ نکلیں گے۔

ہمیں جب کوئی چیلنج کرتا ہے تو ہم بہت خوش ہوتی ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے بل کہ اس لیے کہ ہماری وجہ سے ملک کے خزانے میں اضافہ ہوتا ہے، کاش خزانے لوٹنے والے بھی ہم جیسی سوچ اپنا لیں۔

سال 2008 کے انتخابات میں ووٹروں کی عددی شرح (ٹرن آئوٹ)  44 فی صد رہی تھی، اب کی بار الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سطح کو 84 فی صد تک لانے کے لیے ’’پانچ سالہ سٹرٹیجک منصوبہ 2010-2014‘‘ تشکیل دیا ہے جس کے سٹرٹیجک ہدف نمبر13 کو بروئے کار لایا جائے گا، اس کو ’’ووٹر میں شعور و آگاہی کا منصوبہ 2012-13‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا ایک واضح مقصد یہ بھی ہے کہ اس انتخاب میں ہماری کارکردگی پہلے سے زیادہ بہتر ہو گی۔ اس منصوبے کے تحت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

انتخابات کا عمل مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، پہلے مرحلے میں ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے غیر جانب دار پولنگ سٹاف کا تقرر ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں اس عملے کی تربیت شروع ہوتی ہے، تیسرے مرحلے میں ریٹرننگ آفیسر سے انتخابات سے متعلقہ سامان (میٹریل) کی وصولی ہو گی (جو غالباً آج 5 مئی سے شروع ہو جائے گی)، چوتھے مرحلے میں پولنگ اسٹیشن کا محل وقوع اور قیام عمل میں آئے گا، پانچویں مرحلے میں 11 مئی کو پولنگ اور ووٹنگ ہو گی۔ اسی دن ووٹوں کی گنتی کا چھٹا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔ ساتویں مرحلے میں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ متعلقہ فارمز کو پُر کرنا ہوگا، آٹھویں مرحلے میں پولنگ اسٹیشن کے باہر نتائج چسپاں کرنے ہوں گے، نویں اور آخری مرحلے میں ریٹرننگ آفیسر کو پولنگ سامان اور گنتی کی رپورٹ فوری طور پر  جمع کرانا ہوتی ہے۔

جب تیسرا مرحلہ شروع ہوگا تو ہم پرچیوں کو پریزائیڈنگ افسران اپنے ریٹرننگ افسروں سے دیگر سامان کے ساتھ وصول کریں گے، پھر ہماری حفاظت کے لیے اقدامات کو ممکن بنایا جائے گا، اس کے بعد اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر (APO) اور پولنگ افسر (PO) کا کام شروع ہو جاتا ہے، وہ پولنگ اسٹیشن پر آنے والے ووٹر کے کوائف کو سب سے پہلے شناختی کارڈ کے ذریعے چیک کرے گا، ووٹر لسٹ میں اُس کے نام اور دیگر کوائف کی تصدیق کرنے کے بعد اسے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے ہرا اور سفید یعنی دو بیلٹ پیپرز فراہم کرے گا، بیلٹ پیپرز کاٹنے سے پہلے اُس کے انگوٹھے پر ان مٹ سیاہی سے  نشان لگایا جائے گا اور اُس کو ووٹ کی پرچی پر لگانے کے لیے ایک مخصوص نشان والی مہر فراہم کی جائے گی جو ووٹر نے اپنے پسندیدہ امیدوار کے نشان پر لگانی ہوتی ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ مہر نشان کے خانے سے باہر لگ گئی یا ایک کی بجائے دو نشانوں پر لگا دی گئی تو جان لیجے کہ گئے کام سے، ایسی پرچی کو یا تو منسوخ تصور کیا جائے گا یا پھر اُس کی حیثیت جانچنے کے لیے اس کو الگ کر دیا جائے گا۔ ہم پرچیوں پر ووٹر جب مہر لگا رہے ہوں گے تو وہ مکمل راز داری کے ساتھ یہ کام سرانجام دیں گے۔ یہ ہی راز داری ہمارا تقدس ہے اور اسی کو ممکن بنانے کے لیے قوم اپنے اربوں روپے انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے پر صرف کرتی ہے، رازداری کے لیے ووٹنگ سکرین تیار کی جا چکی ہیں۔

میں کاغذ کی ایک سادہ سی پرچی ضرور ہوں لیکن سبھی مجھے بہ یک زبان نہایت اہم قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ مجھے ’’مقدس امانت‘‘ کہا جاتا ہے۔ موجود تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، میری وجہ سے قومیوں کی تقدیریں جہاں بدل کر بہتری کی جانب گام زن ہوئیں وہاں میرے غلط استعمال کی وجہ سے ملتیں تاریکیوں میں بھی ڈوبیں۔ آیے آج عہد کریں کہ ہم نے مستقبل میں ایک شان دار اور باوقار قوم بننا ہے۔ کچھ معلوم بھی ہے قوموں کی برادری میں غیر ہمیں ’’ہجوم‘‘ کہنا شروع کر دیا ہے، اس طعنے کو برداشت کرنے کے بجائے اگر ہم اس بار مکمل ایمان داری سے اپنے اپنے حلقوں میں صحیح نمائندوں کا چنائو کرنے میں کام یاب ہو گئے تو اس اذیت سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ وعدہ کیجے آپ مقدس امانت کی تذلیل نہیں کریں گے۔

جعل سازی کا تدارک

بیلٹ پیپر کو محفوظ بنانے کے لیے نادرا نے سیکیوریٹی فیچر پلان تیار کیا ہے۔ اس پلان کو بیلٹ پیپر میں شامل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو سفارش کی گئی تھی۔ نادرا کے تیار کردہ پلان میں بیلٹ پیپر میں 3 مختلف سیکیوریٹی فیچر ہوں گے جن کی مدد سے ووٹ کی جعل سازی کے تدارک میں مدد ملے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز کی تیاری کو کرنسی نوٹوں سے بھی زیادہ محفوظ بنایا ہے اور ان کی تقسیم بھی فوج کی نگرانی میں کرائی جائے گی۔ پنجاب میں پولنگ اسٹیشن 37 ہزار سے بڑھا کر 40 ہزار، سندھ میں 41 سے بڑھا کر 18 ہزار، خیبر پختونخوا میں ساڑھے 9 ہزار سے بڑھا کر 11 ہزار کردیے گئے ہیں جب کہ بلوچستان میں بھی پولنگ اسٹیشنز کی تعداد کا تعین جلد کر لیا جائے گا۔

ان مٹ سیاہی ، مس پرنٹنگ، اضافی کاغذ

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ان مٹ سیاہی کی تیاری کا عمل بہ چشم خود دیکھنے کے لیے اسلام آباد میں پرنٹنگ کارپوریشن کے دفتر کا دورہ کیا ہے۔ ایم ڈی پرنٹنگ کارپوریشن نے کمیشن کے ارکان کو بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے متعلق بریفنگ دی۔ بعد ازاں یہ ارکان پاکستان کونسل آف سائینٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ  گئے اور ان مٹ سیاہی کی تیاری کا عمل بھی ملاحظہ کیا۔ اس سیاہی کی تیاری اور اس کے دیگر لوازمات پر 15 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق چھپائی کے دوران اگر بیلٹ پیپر کی کوئی شیٹ خراب پرنٹ ہوئی تو اسے الیکشن کمیشن کے نمائندوں، فوجی حکام اور پاکستان سیکیوریٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے حکام کی موجودگی میں تلف کیا جائے گا۔ جعلی بیلٹ پیپرز کے تدارک کے لیے بیلٹ پیپرز کے خد و خال بھی کرنسی نوٹ کی طرز پر پیچیدہ ہوں گے۔ ڈی جی الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے 18 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپے جائیں گے۔ دو کروڑ بیلٹ پیپر اضافی چھاپے جائیں گے جب کہ انتخابات کے لیے 5 فی صد بیلٹ پیپر اضافی چھاپے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے اپنا عملہ تعینات کیا تھا تاکہ بیلٹ پیپر کا نمونہ باہر نہ لایا جا سکے۔ سیکیوریٹی کے تحت پرنٹنگ کارپوریشن کے ملازمین کی روزانہ کی بنیاد پر چیکنگ کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ بیلٹ پیپر کا اضافی کاغذ جلا دیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔