انسانیت یا سیاست؟

سعدیہ مظہر  پير 23 جولائی 2018
 انسانیت ہر سیاست، مذہب، ذات پات سے بلند اور بالاتر ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

انسانیت ہر سیاست، مذہب، ذات پات سے بلند اور بالاتر ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

موسم گرما کی تعطیلات کی اس سال سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی پارہ بھی موسمی پارے کے ساتھ مقابلے پر چڑھتا جارہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پہلے لوگ اس موسم میں سیروتفریح کےلیے نکل جایا کرتے تھے اور شہر ویران لگتے تھے، لیکن اب تو کیا رونق میلے کا سماں ہے۔ ہر گلی محلے میں ٹھنڈے مشروبات بھی میسر، سایہ بھی اور ٹھنڈی ہوا دینے والے پنکھے بھی۔

اب دیکھیں جناب گلہ شکوہ تو اپنی جگہ، لیکن جو خوبیاں اور فوائد ہیں، خواہ مختصر دورانیہ کےلیے ہی سہی، ان کا اعتراف بہت ضروری ہے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ وہ سرکاری عمارتیں یعنی اسکولز، کالجز وغیرہ جو تین ماہ کی چھٹیوں میں بند پڑے رہتے تھے، اب تو ان کی صفائی ستھرائی کا کام بھی جاری ہے۔ اور جناب فیشن انڈسٹری کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ پہلے تو جلسوں میں صرف جھنڈے نظر آتے تھے، لیکن اب تو اپنے قائد سے اظہار یکجہتی کےلیے لباس بھی شوکیس میں سج چکے۔ رنگوں کا امتزاج تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ محترم اور محترمہ کی تصاویر والی قمیضیں بھی جلسوں میں پہننی نظرآتی ہیں۔ مطلب سیاست اب صرف سیاست نہیں بلکے ایک تہوار کا رخ اختیار کرچکی ہے، اور یہ تہوار پاکستان میں پچھلے تین ماہ سے آہستہ آہستہ تشریف لا رہا تھا اور اب تو وقت سلیکشن میرا مطلب الیکشن قریب تر ہے۔

الیکشن کے دن قریب آتے جا رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر صورتِ حال سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’’سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر اگلی نسل کا ‘‘۔ چلیں ہم اگلی نسل کی بات نہیں کرتے، موجودہ ہی کا سوچ لیں ہمارے سیاستدان, آپ لیڈر سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں۔

اخلااقیات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو مکمل الزام سیاستدانوں پر ڈالنا بھی درست نہیں۔ وہ جو الیکشن مہم چلا رہے ہیں اور جوش میں ہوش یہاں تک کھو بیٹھے کہ بے زبان جانوروں تک کی تذلیل شروع کردی۔ اب جس گدھے کو ’’ن‘‘ کے چکر میں زخمی کیا گیا وہ بھی دل میں یقیناً پچھتاتا ہوگا کہ اس کی ماں نے منع بھی کیا تھا مت جا انسانوں میں، مگر تب بات مانی ہوتی تو یہ حال نہ ہوتا۔

دوسری جانب بادشاہ سلامت کی بھی شامت آئی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے‘‘ تو اب جس نے شہر کا رخ کیا ہے پتہ نہیں اس کی کھال کس نے بدل دی ہے۔

خدا بچائے اندھی تقلید سے، آج کل یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا کہا گیا بلکہ اہم یہ ہو گیا کہ کس نے کہا؟ یعنی ’’سچ‘‘ کو پرکھنے کےلیے پیمانہ اندھی تقلید ٹھہرا۔ جبکہ اب تک سنتے آئے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا یہاں تقلید نے عقل و نگاہ پر پٹی باندھ دی۔ کوئی اپنے قائد محترم کے والہانہ استقبال میں اتنا مست رہا کہ ملک کے دوسرے کونے میں لاشوں کے ڈھیر سے بے خبر رہا اور جن اداروں نے خبر پہنچانے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے ان کی اسکرینوں پر بھی پل پل کی خبر نشر ہوئی لیکن سیاسی استقبال کی۔

سیاسی جنگ میں ہم اتنے اندھے ہو گئے کہ اپنی اخلاقی اقدار، عورت کا احترام، سچ اور جھوٹ کا فرق سب ختم کر چکے۔ نا جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جہاں ایک انگلی ہم کسی کی جانب اٹھاتے ہیں وہیں باقی چار کا رخ اپنی جانب ہوتا ہے۔

آپ سیاست کریں، ضرور کریں، مگر یاد رکھیں! انسانیت ہر سیاست، مذہب، ذات پات سے بلند اور بالاتر ہے۔ اپنی الیکشن مہم کو کامیاب بنانے کےلیے مخالف پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اپنے منشور اور مقاصد کو عوام تک پہنچائیں۔ اور ہماری بھولی بھالی عوام کو بھی مفت مشورہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ن، ق، پ کے چکر میں کہیں الیکشن کے دوسرے دن ساتھ والے گھر کے مکینوں سے نظر ملانے کے قابل بھی نہ رہیں۔

کیونکہ آج جب روز نمک سے غرارے کرنے کے بعد آپ جن کے نعرے لگا رہے ہوں گے کل وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوکر بہرے ہوجائیں گے۔ پھریقیناً وہ کہاوت ضرور یاد آئے گی آپ کو ’’اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

سعدیہ مظہر

سعدیہ مظہر

سعدیہ مظہر صحافی اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف قومی جرائد میں انگریزی اور اردو میں لکھتی ہیں۔ ان کا ای میل [email protected] ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔