مسئلہ کشمیر انتخابی سیاست کا حصہ نہیں رہا؟

غلام محی الدین  اتوار 12 مئ 2013
    کچھ مسائل ایسے بھی تھے جنہیں پاکستان کی مخالف قوتوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کیا. فوٹو: فائل

کچھ مسائل ایسے بھی تھے جنہیں پاکستان کی مخالف قوتوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کیا. فوٹو: فائل

برصغیر کی تقسیم اور اس تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کا قیام اپنے ساتھ بہت سے مسائل بھی لے کر آیا۔

ان میں سے بہت سے مسائل تو اس عظیم تبدیلی کا منطقی نتیجہ تھے‘ یعنی ہمیں ایک ریاست کا نئے سرے سے آغاز کرنا تھا اور وہ تمام وسائل اور مہارت مہیا کرنا تھی جو ایک ملک کوچلانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ لیکن کچھ مسائل ایسے بھی تھے جنہیں پاکستان کی مخالف قوتوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کیا تاکہ مستقبل میں عالمی سیاسی منظر نامے میں برصغیر کے معاملات کو اپنے مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔ پاکستان کے معاملات کو بگاڑنے میں اور اسے ایک ناکام ریاست ثابت کرنے میں بھارت کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں‘ لہٰذا برصغیر کو چھوڑ کر جانے پر مجبور انگریز نو آبادیاتی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بھارت نے ہر وہ کوشش کی جس سے اس خطہ زمین پر رونما ہونے والی جغرافیائی تبدیلی کے خلاف ان کے معاندانہ رویے کا اظہار ہوتا تھا۔برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مستقبل پر جو مسئلہ سب سے زیادہ اثرانداز ہوا وہ مسئلہ کشمیر ہے۔

کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی اندرونی سیاست پر بھی پوری طرح حاوی رہا ہے۔ 2013ء کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے انتخابات ہوں گے جن میں مسئلہ کشمیر کو تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی اولین ترجیحات سے خارج کر دیا ہے جس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں اس بات کو سمجھ رہی ہیں کہ اہم عالمی طاقتیں ان سے کیا توقع رکھتی ہیں اور انہیں خود کو ان عالمی قوتوں کیلئے قابل قبول بنائے رکھنے کے لئے کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے دور میں کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے اندر پہلی بڑی سیاسی تبدیلی جنرل ایوب خان کی رخصتی تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد روسی قیادت کی کوششوں سے تاشقند میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں تاشقند معاہدہ ہوا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے وطن واپس آ کر اس بات کو بنیاد بنا کر صدر ایوب خان کے خلاف لوگوں کو متحرک کیا‘ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ ایوب خان نے مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے۔ بھٹو کی اس مہم نے ایوب خان کے خلاف شدید نفرت کی فضاء بنا دی اور انہیں ایوان صدر سے رخصت ہونا پڑا۔ اس عرصہ میں بھارت نے پاکستان کو ایک اور جنگ میں الجھا کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی ، 2 جولائی 1972ء کو شملہ معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں کشمیر کے معاملے پر بھارت کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس معاہدے کے تحت مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت ختم ہو گئی اور مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ بن کر رہ گیا، دوسرے لفظوں میں ہم اس معاملے میں بھارت کے رحم و کرم پر ہیں۔

بھٹو حکومت کا خاتمہ ایک نئے مارشل لاء کے ذریعے ہوا اور اس فوجی حکومت کے دور میں بھارت نے کشمیر کے سلسلے میں ایک اور اہم فوجی کامیابی حاصل کرتے ہوئے سیاچن پر چڑھائی کی اور پاکستان کے ایک ہزار مربع میل یعنی تین ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کرلیا تاکہ کشمیر پر بھارت کے مواصلاتی رابطوں کو درپیش خطرات کا زیادہ تر تدارک کیا جا سکے۔ 1988ء میں ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی۔ انتخابی مہم اور منشور میں مسئلہ کشمیر کا ذکر موجود تھا۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں اور اسی دور حکومت میں مسئلہ کشمیر کو ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے جانے کی تیاری ہوئی۔ اقوام متحدہ میں قرارداد جمع کرا دی گئی۔ ملک میں اس حوالے سے خوب جوش و خروش رہا لیکن اس سے پہلے کہ یہ قرار داد زیر بحث آتی خود ہی اسے واپس لے لیا گیا اور سرکاری میڈیا پر دن رات پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ پاکستان نے قرارداد واپس لے کر کشمیر پر بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اس عرصے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز دو دو مرتبہ برسراقتدار رہے۔ ان پارٹیوں کے انتخابی منشوروں میں کشمیر کے معاملے کو مناسب اہمیت حاصل رہی۔ 1999ء میں ملک ایک مرتبہ پھر مارشل لاء سے دور چار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو بنے اس دور میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان نے کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے انحراف کیا۔ جنرل پرویز مشرف کا شمار ان جرنیلوں میں ہوتا تھا جن کا کشمیر پر موقف انتہائی سخت تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بھارت سے بیک ڈور ڈپلومیسی کا آغاز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک نہ چلتی تو مسئلہ بھارت کے حق میں حل ہو چکا ہوتا۔ ملک کی مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس دور میں کشمیر پر پاکستانی موقف کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ مشرف دور میں کشمیر کی جدوجہد آزادی سے لاتعلقی کا مظاہرہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا۔

پیپلزپارٹی کی حدتک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی موجودہ پالیسی میں کشمیر سے ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے۔ 18 فروری 2008ء کو ہندوستان کے نجی ٹی وی چینل سی این این‘ آئی بی این کے پروگرام ’’ڈیولز ایڈووکیٹ‘‘ کے صحافی کرن تھاپر کو دیئے گئے انٹرویو میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے فرمایا تھا ’’پاک بھارت تعلقات کو کشمیر کے تنازع سے باندھ کر نہیں رکھنا چاہیے۔ پہلے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط ہو جائیں پھر مسئلے کا حل تلاش کریں گے۔ یعنی تعلقات اتنے مضبوط ہو جائیں کہ پھر مسئلہ سرے سے مسئلہ رہے گا ہی نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کی آنے والی نسلیں خود اس مسئلہ کا حل کر لیں گی۔ کشمیر کے حوالے سے اس وقت ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں‘ پاکستان پیپلزپارٹی ‘ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف نے کم و بیش ایک ہی طرح کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ تینوں جماعتوں کے انتخابی منشور میں مسئلہ کشمیر کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے جیسے خانہ پری کی جاتی ہے‘ اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا یہ مسئلہ متقاضی ہے۔

حالانکہ مارچ کے مہینے میں آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم چودھری عبدالمجید کی سربراہی میں ایک وفد نے لاہور کا دورہ کیا‘ جس میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر اور موجود اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سربراہ عبدالرشید ترابی بھی شامل تھے۔ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے اس ایشو کو مؤثر طور پر اجاگر کریں۔ مگر اس کے باوجود مسئلہ کشمیر کو انتخابی مہم اور منشوروں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نمایاں نہیں کیا جا سکا۔ توقع کی جاتی تھی کہ تحریک انصاف جس نے اپنے پروگرام کی بنیاد ہی انصاف کو قرار دے رکھا ہے۔ مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس عالمی دہشت گردی کے تدارک اور کشمیریوں کو انصاف دلانے کے مشن کو اپنے انتخابی منشور کے اہم ترین نقاط میں شامل کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔