دہشت گردی اور الیکشن

ایڈیٹوریل  منگل 24 جولائی 2018
ملک کو اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں۔ فوٹو: فائل

ملک کو اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں۔ فوٹو: فائل

ڈیرہ اسماعیل خان میں سابق وزیر زراعت خیبرپختونخوا اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 99سے تحریک انصاف کے امیدوار سردار اکرام اللہ خان گنڈا پور خود کش حملے میں اپنے ڈرائیور سمیت شہید جب کہ 5افراد زخمی ہو گئے۔

ادھر بنوں میں سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور عمران خان کے خلاف انتخابی امیدوار اکرم خان درانی ایک اور قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے‘ وہ اتوار کی صبح انتخابی مہم کے سلسلے میں بسیہ خیل جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی اور فرار ہو گئے‘ دس روز قبل بھی اکرم درانی کے قافلے پر بنوں ہی میں ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ ہوا جس میں پانچ افراد شہید ہو گئے تھے۔

حالیہ انتخابی مہم میں ماحول کو مجموعی طور پر پرامن اور ساز گار دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اور امیدواروں نے زیادہ سے زیادہ ووٹ بینک حاصل کرنے اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے مختلف شہروں میں جلسے اور کارنر میٹنگز کیں تاہم اس دوران دہشت گردی کے چند ناخوشگوار واقعات کے رونما ہونے سے انتخابی ماحول میں خوف و ہراس کی فضا ضرور پیدا ہوئی اور انتخابی امیدواروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہونے پر نیکٹا اور مختلف اداروں کی جانب سے سیاسی قیادت اور انتخابی امیدواروں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جانے لگا جس کے بعد سیکیورٹی اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔

10جولائی کو دہشت گردوں نے پشاور میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کی انتخابی کارنر میٹنگ میں اچانک خود کش حملہ کر دیا جس سے ہارون بلور سمیت 14افراد شہید اور 65زخمی ہوئے، پھر 13جولائی کو مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کے جلسے میں خود کش حملے سے سراج رئیسانی سمیت 130افراد شہید جب کہ 150سے زیادہ زخمی ہوگئے‘ اسی روز بنوں میں اکرم درانی کے قافلے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

اگرچہ مجموعی طور پر ملک بھر میں انتخابی فضا پرامن ہے اور سیکیورٹی ادارے اپنے فرائض پورے عزم اور جانفشانی سے سرانجام دے رہے ہیں لیکن انتہا پسندوں کی جانب سے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے انتخابی امیدواروں کو خوف زدہ کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

اب تک دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات خیبرپختونخوا میں رونما ہوئے لہٰذا اس تناظر میں یہ ناگزیر ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالخصوص سیکیورٹی کے مزید انتظامات کیے جائیں۔ اگرچہ انتخابی مہم پیر کی رات 12بجے ختم ہو گئی لیکن انتخابات میں ابھی ایک روز باقی ہے لہٰذا دہشت گردی کے کسی بھی ممکنہ واقعے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ 25جولائی جو الیکشن کا دن ہے اس دن بالخصوص پولنگ اسٹیشنوں اور انتخابی امیدواروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے سخت اقدامات کیے جانا ناگزیر ہے‘ علاوہ ازیں ووٹنگ کے بعد انتخابی نتیجہ سامنے آنے پر جیتنے والے امیدواروں کی سیکیورٹی پر بھی توجہ دینا ہو گی کیونکہ شکست خوردہ انتخابی امیدواروں کی جانب سے کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ انتخابی امیدواروں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دیں۔ 25جولائی کے نتائج سے واضح ہو جائے گا کہ عوام نے کس جماعت کو مستقبل کی حکومت کے لیے منتخب اور اقتدار کا سنگھاسن حوالے کیا ہے۔ جیتنے والی پارٹی کو اقتدار ملنے کی خوشی اپنی جگہ مگر حکومت کا تخت اس کے لیے کانٹوں کی سیج سے کم ثابت نہیں ہو گا۔

ملک کو اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں،ایک طرف دہشت گردی اور امن و امان کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے تو دوسری طرف گردشی قرضے،آئی ایم ایف کی جانب سے یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کے لیے دباؤ، روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر، پانی اور توانائی کا بحران‘ درآمدات اور برآمدات میں بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ‘ صنعتی پیداواری لاگت میں اضافے سے جنم لینے والے مسائل کے علاوہ گرے لسٹ میں پاکستان کا نام آنے کے بعد بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکیاں نئی آنے والی حکومت کے ہنی مون پیریڈ کے رنگ میں بھنگ ملا دیں گی۔

سیاسی جلسوں میں عوامی مسائل حل کرنے کے بڑے بڑے دعوے اور تبدیلی لانے کے نعرے لگانا تو آسان امر ہے لیکن حقیقت کے دروازے اس وقت کھلتے ہیں جب ان مسائل کو حل کرنے کے لیے موجود محدود وسائل اور رکاوٹیں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح سامنے آ موجود ہوتی ہیں۔

ہر جانے والی حکومت ملکی سطح پر اپنے تشکیل کردہ ترقیاتی منصوبے پیش کر کے اپنے دور کو سنہری قرار دے کر پھر سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن گلی محلے کے بے پناہ مسائل اور سرکاری ادروں کی انتظامی خرابیاں اس کی کارکردگی کا پول کھولنے کے لیے کافی ہوتی ہیں جنھیں اپوزیشن جماعتیں بڑی مہارت سے اجاگر کر کے عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔